Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

ایک بار پھر پاکستان مزاحمت کرتا ہے: لیکن یہ برداشت کرنا کب سیکھے گا؟

اتوار 5 مارچ کو ہماری قومی گپ شپ اس خبر کے ساتھ شروع ہوئی کہ پاکستان سپر لیگ کا ٹونٹی ٹونٹی فائنل میچ پاکستان میں کامیابی سے کھیلا گیا ہے۔ کھچا کھچ بھرے ہوئے سٹیڈیم، غیر ملکی کھلاڑیوں اور پولیس ، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فراہم کی گئی غیر معمولی سیکیورٹی نے اسے ایک تاریخی کامیابی بنا دیا۔ لیگ کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے لیکن فائنل کے علاوہ گزشتہ سیزن میں بھی اور موجودہ سیزن بھی تمام میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے۔اس کی وجہ پاکستان میں سیکیورٹی کی پتلی صورتِ حال تھی۔
ایسے عمل، ردِ عمل اور پریشانیوں سے پاکستان میں کاروبار معمول کے مطابق رہا۔زیادہ دیر پہلے کی بات نہیں ہے جب لعل شہباز قلندر کے مزار پرہونے والے ایک قابلِ نفرت اور بے رحم خودکش دھماکے نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی جس میں درجنوں خواتین اور بچے مارے گئے اور کم ازکم تین سو زخمی ہوئے ۔دہشت گردوں نے اپنا آسان ہدف جان کر ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں خاندان جاتے ہیں۔عوام کو محفوظ کرنے کے لیے میٹل ڈیٹیکٹر، سیکیورٹی الارم اور دیگر حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے۔ شرم ناک بات ہے مگر ایسی بر بریت اب مزید حیرت والی بات نہیں رہی۔ ہمیں اس صورتِ حال پر غصہ تھا ، ساتھ ہی ساتھ ہم سن ہو گئے۔
ہمارا غصہ برقرار رہا کیوں کہ اکثر خواتین اور بچے جو اس سانحے میں مارے گئے ، وہ اس قابل نہیں تھے کہ 7.6بلین امریکی ڈالر سے اپنا قانونی حصے کا دعویٰ کر سکیں۔ یہ وہ رقم ہے جو حکومت نے قومی سلامتی پر2016ءمیں خرچ کی۔ اس کے بجائے ان ماﺅں، بیٹیوں، بہنوں اور بھائیوں نے اعداد پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔ یہ اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان چوٹی کے ان پچیس ممالک میں شامل ہے جو قومی سلامتی پر اس قدر خرچ کرتے ہیں۔
لیکن 17فروری کو ہمارے فوجی افراد، نشانہ باز، ہینڈ گنیں، اسالٹ رائفلیں، مشین گنیں، ڈرون، ایف۔سولہ، میزائل اور ایٹمی ہتھیار ایک بھی انسانی جان نہ بچا سکے۔ اس کے بجائے اس مقدس مقام پر خون بہتا رہا۔ سائرن ساکت فضا کو چیرتے رہے۔ ماتم کرنے والے رو پیٹ رہے تھے اور مایوسی کا احساس تھا۔ دہشت گردی نے اپنا بد نما سر پھر باہر نکالا ہے، لیکن ہمارے نام نہاد لیڈر کہاں تھے؟
16دسمبر2014کو سات غیر ملکی جہادیوں نے ایک سو اکتالیس لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ ان میں آرمی پبلک سکول پشاور کے 132معصوم
طالب علم تھے ۔ ایسے قتلِ عام کے بعد شہریوں کی حفاظت کے معاملے میں ہماری حکومت بالآخر نیند سے بیدار ہوئی ۔ اس نے اداروں کو
مینڈیٹ دیا کہ وہ وہی کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے ، میٹل ڈیٹیکٹرز، سیکیورٹی الارم نصب کریں اور اُنھیں حکم دیا کہ وہ سیکیورٹی گارڈ رکھیں اور عوامی تحفظ کویقینی بنانے کے لیے دیگر اقدامات کریں۔ وہ جگہیں جن کے لیے یہ احکامات دیے گئے، اُن میں تعلیمی ادارے، نجی کلینک، نجی پارک، شادی ہال، ہسپتال، بنک، مالیاتی ادارے، غیر حکومتی تنظیمیں، غیر ملکی منصوبے، مذہبی اجتماع گاہیں، کمپنیاں، فرمیں، پٹرول اور سی۔این۔جی اسٹیشن، زیورات کی دکانیں، تفریحی مراکز، لاری اڈے اور کاروبار ی مراکز شامل تھے لیکن اسی جمعے کے روز یہ حفاظتی اقدامات، احتیاطیں، تنصیبات اور افراد بغیر کسی عذر کے اس مشہور مقدس مقام پر موجود نہیں تھے۔
کیا چل رہا ہے؟ ہمیں جواب حاصل کرنے کے لیے دلیر ہونا چاہیے۔ کیا کوئی اور چیز بھی واقعہ ہو رہی ہے؟
جی ہاں، بلا شبہ کچھ اہم باتیں ہو رہی ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ پہلی بار روشنی چمکے جہاں تفصیلات اتنی لمبی مدت تک الگ تھلگ رہیں۔ جو اعدادوشمار میں نے جمع کیے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ملک بھر میںکام کرنے والے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کی تعدادسامنے لاﺅں، اداروں کی تعداد اور سیکیورٹی گارڈز کی اوسط تعداد کا تجزیہ کروں اور یہ گارڈز ہر ماہ جو تنخواہ وصول کرتے ہیں، اُس پر ایک نظر ڈالی جائے۔
چالیس نجی تفریحی پارکوں میں تین سو بیس سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں دو سو چالیس معروف نجی ہسپتال ہیں اور تقریباً تین ہزار نجی کلینک ہیں جہاں ڈاکٹر پریکٹس کرتے ہیں۔ اوسطاً ہر ہسپتال میں دس سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں۔ ہر کلینک پر ایک سیکیورٹی گارڈ ہے۔ یوں اس شعبے میں 5,400سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
تقریباً چالیس ہزار سی این جی اور پٹرول پمپوں پر آٹھ ہزار سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
سات ہزار زیورات کی دکانوں پر دس ہزار سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
چار ہزار شادی ہالوں میں بارہ ہزار سیکیورٹی گارڈزہیں۔
آٹھ ہزار غیر حکومتی تنظیموں اور غیر ملکی منصوبوں پر سولہ ہزار سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں۔
نیشنل ہائی وے ٹرانسپورٹ بسوں کے لیے بیس ہزار سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
چھیالیس بنکوں کی بارہ ہزار شاخوں میں چھتیس ہزار سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ فرمز اور کاروبار میں پچاس ہزار سیکیورٹی گارڈز ہیں۔
ایک لاکھ مساجد ، مزارات، گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں میں کل وقتی یا جزوقتی سیکیورٹی گارڈز ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان اداروں میں سیکیورٹی کے فرائض رضاکار انجام دیتے ہیں۔
دیگر اداروں کی طرح جنھوں نے حکومتی ہدایات پر عمل کیا ہے،پاکستان میں 225,711سکولوں میں سیکیورٹی گارڈز رکھے گئے ہیں تاکہ
طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔اس تعداد میں دس ہزار نجی سکولوں نے ہر سکول میں دو دو سیکیورٹی گارڈز رکھے ہیں ۔ یوں سکولوں میں
سیکیورٹی گارڈز کی مجموعی تعدادتقریباً 250,000ہے۔
یوں ملک بھر میںبھرتی کیے گئے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کی تعداد 493,431تک جا پہنچتی ہے۔ نجی سیکیورٹی کے لیے مختص کیا گیاایک سیکیورٹی گارڈ کا اوسط بجٹ اندازاً دس ہزار روپے فی ماہ ہے۔ سالانہ خرچ 540ملین امریکی ڈالر بنتا ہے ، اتنی بڑی رقم ہاتھ کی صفائی سے سیدھے سادے شہریوں کو چلی جاتی ہے۔
یاد کیجیے جب حکام نے موٹر سائیکل چلانے والوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا اور قانون توڑنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تو ہیلمٹ کی قیمت ایک ہفتے کے اندر اندر تین سو روپے سے بڑھ کر دو ہزار روپے تک ہو گئی۔ فطری طور پر عوام کو لازمی حفاظت کی بڑھی ہوئی قیمت کو سہنا پڑا ۔ اس کے علاوہ جرمانے بھی ہیں جو اب عائد کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کی صورتِ حال کاروبار اور تعلیمی داروں کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے ، میٹل ڈیٹیکٹر، سیکیورٹی الارم، خاردار تار، چاردیواریوں اور حفاظتی اقدامات کرتے وقت دکھائی دی۔ شہریوں کی کمزور جیبوں سے اربوں ڈالر کامیابی اور ہوشیاری سے نکال لیے گئے۔خود ریاست نے اسلام آباد اور لاہور کے محفوظ شہر منسوبوں پر اربوں خرچ کیے۔
اس سے پہلے2014ءمیں جب نجی سیکیورٹی ایمرجنسی لگائی گئی تو مارکیٹ سے آلات اور سیکیورٹی کے آلات ختم ہو گئے۔ ہمارے ”دیانت دار“ تاجر وں نے چین سے عجلت میں بنے ہوئے غیر معیاری آلات دھڑا دھڑ درآمد کیے ۔ کسی نے کبھی ان آلات کی کوالٹی چیک نہیں کی کہ آیا یہ آلہ بوقت ِ ضرورت کام بھی کرے گا کہ نہیں۔گزشتہ دو سالوں میں حکومت نے کوئی کنٹرول روم بنانے یا کوئی ویب فیس بنانے کی کوشش نہیں کی جو ملک کے مختلف حصوں میں نجی طور پر نصب کیے گئے ان آلات کی فعالیت اور مقام کو چیک کر سکے۔
کیا یہ ممکن ہے؟ جی ہاں، ایک سم سے یہ سارا کام ہو سکتا ہے!
یہ ایک بلیک ہول (ایسی جگہ جہاں دولت بظاہر غائب ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا) سیکیورٹی بجٹ ہے۔ اتنے زیادہ سیکیورٹی گارڈز کے ہوتے ہوئے بھی راہ زنی، قتل اور نجی تنصیبات پر حملوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015-16ءمیں بنک ڈکیتوں نے چالیس ملین روپے کے ڈاکے ڈالے۔ تعلیم کو بچانے کے لیے گلوبل کولیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009ءسے پاکستان کے 845 تعلیمی اداروں کو عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا۔ٹھیک طریقے سے مسلح نہ کیے گئے سکیورٹی گارڈز تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کو نہ روک سکے۔
جنوبی ایشیا کی دہشت گردی کی پورٹل کے مطابق گزشتہ سال دہشتی حملوں سے مرنے والوں کی تعداد 940تھی۔ 339سیکیورٹی اہل کاروں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔
پاکستان کے جرائم کے اعدادوشماراس سے بھی زیادہ خراب تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اتنی زیادہ نجی سیکیورٹی کے باوجود2015ءمیں 13,276افراد قاتلانہ حملوں میں مارے گئے اورراہ زنی کی وارداتوں میں81,520افراد کو ان کے قیمتی اور منقولہ جائیداد سے محروم کر
دیا گیا۔ 33,243گاڑیاں چرائی گئیں، 3,285 خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی اور 329کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔

حقیقت میں ہم ہیں کون؟
جب کہ ہم اُس دن کا خواب دیکھتے ہیں جب کسی بھی عقیدے اور وابستگی والی خواتین اور بچے بغیر ایک دُوسرے کے خوف کے ایک دوجے کے قریب آ سکیں ، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہماری مقامی حفاظت بہت اہمیت کی حامل ہے اور یہ آب دوزوں اور لڑاکا جیٹ طیاروں میں نصب شدہ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی نہیں۔
جب کہ ایک شان دار سرزمین کا خواب دیکھتے ہیں جس میں طاقت و اختیار کے مقابلے میں لوگ زیادہ اہم ہوں، اکثر اوقات طاقت و اختیار والے بد عنوان ہاتھ ہوتے ہیں جو کمزور ذہنوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ یہ کمزور ذہن یہ سمجھتے ہیں کہ مقدس دہشت کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آج کل کے دہشت گرد ٹیکنالوجی کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ ہزاروں میل دُور سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وہ آن لائن نقشے اور ڈیٹا استعمال کرتے ہیں۔ اُن کے بم ڈیجی ٹل اور بغیر تار کے ہیں، بمبار بھی ایسے ہی ہیں۔ لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس پنجاب میں صرف ایک محکمہ ہے پی آئی ٹی بی۔ یہ واحد ادارہ بہادری کے ساتھ ٹیکنالوجی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ”ہوٹل آئی“ اس کی حالیہ مثال ہے۔ پنجاب پولیس نے ہوٹلوں میں نصب اس نئے بننے والے سوفٹ وئر کی مدد سے پنجاب بھر سے 1,179مجرموں کا سراغ لگایا ہے، ان میں سے گیارہ شیڈیول 4 کے مجرم تھے۔ مال روڈ پر ہونے والے حالیہ حملے جن میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن احمد مبین اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن زاہد گوندل اپنی زندگیاں ہار گئے، ان کے مجرموں کا سراغ صرف ایک دن میں لاہور محفوظ شہر کے منصوبے کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے لگایا گیا۔ ملک کے دُوسرے صوبوں میں یہ مثالیں موجود نہیں۔ جیسا کہ پنجاب نے کیا، کیا ہم پاکستان سپر لیگ کا فائنل خیبر پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں پنجاب جیسی سیکیورٹی کے ساتھ منعقد کر سکتے ہیں؟
اس پاکستان سپر لیگ کے ذریعے سے ہم نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ہم وہ انسان نہیں جو صوبوں کی لکیروں، جماعتی یا مذہبی وابستگی کی بنا پر الگ الگ نہیںہیں۔
جمعے کے دن ہمیشہ کے لیے آپس میں گندھی ہوئی زندگیوں نے جس میں بہت سے خیال رکھنے والے افراد ایک ساتھ آئے ، اُنھوں نے فائنل میچ کے نام پر دہشت کو شکست دے دی۔
یہ ہیں ہم لوگ۔ با فخر پاکستانی!
ایک دن وہ بھی تھا جب غیر انسانیت، بد اعتمادی اور قتلِ عام خبروں میں سرِ فہرست ہوتے تھے، چند دن بعدیہ احساس سکون بخش تھا کہ ہر فرد کے خون کے سیل کمال کے، حیرت انگیز اور زندگی کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ بے رحم حیوانیت کے باوجود ہم زیادہ با عزم ہیں کہ ہمارے خواب ضرور سچے ہوں گے ۔ دہشت گردی ہمیں پسپائی کے راستے پر نہیں ڈال سکتی۔ نہیں ، ہر گز نہیں۔
اب آپ کا دل کیا کہتا ہے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.