Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

بے سہاروں کی مدد کرنا: سامری قوانین، بنیادی ڈھانچے یا کرداری تبدیلیاں

شاہراہوں اور موٹر ویز کے ساتھ ہم میں سے بہتوں نے کسی حادثے کے بعد حادثے کے شکار ہونے والے بد قسمت افراد کو زمین پر لیٹے مدد کے لیے چیختے چلاتے دیکھا ہو گا۔ درجنوں اپنے ہم وطنوں کا چہرہ، اُن کی شکستہ ہڈیاں اور اُن کے جسموں سے بہتا خون دیکھنے کے لیے رُک جاتے ہیں لیکن اُن مایوس زخمیوں کو تیزی سے ہسپتال پہنچانے کے لیے ہم میں سے چند ایک نے اپنی گاڑیاں پیش کی ہوں گی ۔ اس کے بجائے ہم اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ حادثے کے شکار ہونے والوں میں ہمارا کوئی دوست یا رشتے دار نہیں ہے۔ ہم صرف اتنی سی مدد کی پیش کش کرتے ہیں کہ 1122یا 15پر کال کر دیتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب کے تما م بڑے شہروں میں ، یہاں تک کہ قومی شاہراہوں پر بھی 1122کا ردِ عمل کافی متاثر کن ہے۔ لیکن یہ سہولت پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے دیہات میں رہنے والے 70فی صد پاکستانیوں کو حاصل نہیں ہے ۔ چناں چہ یہ سمجھنا آسان ہے کہ بہت سے ایسے حادثات میں حادثے سے دوچار ہونے والے افراد یا تو موقع ہی پر دم توڑ دیتے ہیں یا پھر ہسپتال پہنچ کر موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔اس کی وجہ گاڑی کے پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے۔
جو معما آج مجھے آپ کو دکھانا ہے ، وہ یہ ہے کہ ”ہم راہ گیروں کی حیثیت سے اپنے بیمار، زخمی، خطرے سے دوچار یا محروم بہن بھائیوں کی مدد کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں جب کہ ہم ان ساتھی انسانوں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوتے ہیں؟
ادارہ¿ شماریاتِ پاکستان نے2013-14 سے سڑک پر ہونے والے حادثات کے اعدادوشمار جاری کیے ہیں،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر روز سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں 15لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے 55فی صد زخمی ہنگامی امداد میں تاخیر کے باعث موقع ہی پر دم توڑ دیتے ہیں ۔ ان سالوں کے دوران میں 97,739 حادثات ہوئے اور 51,416 افراد ان کی نذر ہوئے۔
حادثات میں مرنے والوں میں سب سے اونچی شرح سندھ (86%)میںرہی، اس کے بعد بلوچستان(65%) ، پنجاب(52%)اور خیبر پختون خوا (36%)کا نمبر رہا۔ ایسے پریشان کن اعدادوشمار یہ تجویز کرتے ہیں کہ اس منظرنامے سے نمٹنے کے لیے قانون بنانے والوں اور حکومت کو بھی پبلک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اُس وقت تک اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں عوامی ردِعمل کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ ہنگامی امداد کرنا کارِ خیر ہے۔
اگرچہ ہنگامی خدمات کا ایکٹ اور قوانین رضاکاروں کو کسی بھی قسم کی قانونی ذمہ داری، دعوے یا مطالبے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں ، پھر بھی سچے سماریٹن کی طرح کے اعمال کی روش کچھ ڈاکٹروں کے کردار میں تبدیلی نہیں لا سکی۔ بہت سی مثالیں ہیں، جن میں حادثے کے شکار افراد استطاعت نہ رکھنے کے سبب ڈاکٹر کو ادائی نہیں کر سکتے تھے۔ ہمارے شہروں کے ہسپتال بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ہسپتال، بنیادی صحت کے یونٹ ، دیہاتی مرکزِ صحت ، تحصیل ہیڈ کوارٹراور ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے درکار سہولتوں کا فقدان ہے۔
دو سو ملین آبادی والے ملک میں ، پنجاب کی آبادی ایک سو تین ملین ہے اور اِس صوبے میں اعلیٰ درجے کے بارہ ہسپتال ہیں۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں ڈھائی سو بستر ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ 1,250بستروں پر مشتمل جناح ہسپتال لاہور میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میںچونتیس بستر ہیں جب کہ چوّن وینٹی لیٹرز ہیں۔ بائیس سو بستروں پر مشتمل میو ہسپتال لاہور میں اڑتالیس وینٹی لیٹرز ہیں جب کہ بارہ سو بستروں والے سروسز ہسپتال، لاہور محض تنتالیس وینٹی لیٹرز ہیں۔ جنوبی پنجاب میں 1450 بستروں پر مشتمل بہاول پور وکٹوریہ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں صرف چھ بستر ہیں۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹوں اور ہنگامی وسائل کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹرجو پہلے ہی انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ایک ایک بستر پر پڑے دو دو تین تین مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں، وہ ہمارے ملک کے قوانین کی وجہ سے مکمل طور پر متاثر نہیں کر پاتے۔
پھر اس کے بعد پولیس رپورٹوں کے مطالبات ہیںاور دیگر تاخیری حربے ہیںجو ہمارے لیے نئے نہیں ہیں۔ پنجاب ایمر جنسی سروسز ایکٹ 2006رضاکاروں کو ان الفاظ میں تحفظ فراہم کرتا ہے ”سروس کے ملازم یا کسی رضاکارسے نیک نیتی سے اپناکام کرتے ہوئے یا سروس میں معاونت کرتے ہوئے کوئی بھول چوک ہو جائے تو ایسے ملازم یا رضاکار کو ذاتی طور پر قانونی عمل ، ذمہ داری ، دعویٰ یا مطالبہ کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ کسی ملازم یا رضاکار سے نیک نیتی سے کام کے دوران کوئی بھول چوک ہو جائے تو اس کے خلاف تمام اعمال، کارروائیوں اور دعووں کا سروس دفاع کرے گی اور ہرجانہ دے گی۔
اسی طرح کے قوانین دیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں۔ لیکن جب ملوث ہونے کے لیے بلایا جائے تو الفاظ کے باوجود محتاط روی اور غصہ ہے۔ گھور گھور کے دیکھتے ہوئے راہ گیر، پولیس کے ہراساں کیے جانے کے خوف سے حادثے کا شکار ہونے والی کی مدد کرنے سے ہچکچاتے ہیں ، انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ پولیس بار بار سوال کرے گی، عدالتوں سے بہت سے سمن آئیں گے، اس کے علاوہ استغاثے کا ڈر ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں پاس سے گزرنے والوں کو دستِ تعاون بڑھانے سے روکتی ہیں۔ پھر حادثے کا شکار ہونے والوں کے ورثا ہوتے ہیں جو پولیس پر دباﺅ ڈالتے ہیں کہ وہ قتل کا الزام لگائیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ حادثے کے بعد ڈرائیور جائے حادثہ سے بھاگ جاتے ہیں۔کچھ بد قسمت گاڑیوں والے خود مظلوم بن چکے ہیں، جب مشتعل ہجوم نے کسی اور کی موت پر سزا کے طور پراُن کی گاڑیاں جلا دیں اور اُن پر حملہ کر دیا۔ اس بات کا کوئی جواز نظر نہیں آتاکہ اس بنیاد پر دُوسروں کی بوقتِ ضرورت مدد نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ ایک خود ساختہ نقطہ¿ نظر یہ بھی ہے کہ جو پولیس کو رپورٹ کرے ، اُسی کو جرم کا مرتکب گردانا جانا جاتا ہے۔ لیکن اُن کے نقطہ¿ نظر سے یہ مجرم ہوتے ہیں جو جلد ہی رہا ہو جاتے ہیں ۔ پھر مظلوموں کو انصاف کہاں سے ملے گا؟ یہا ں عدالت کی طرف سے دیے گئے اختیار والی ٹیکنالوجی کام آ سکتی ہے۔
لیکن نیک نیتی کی ایک بہتر انداز میں تعریف کی جانی چاہیے کہ لوگ ضرورت کی گھڑی میں دُوسروں کے مدد کر سکیں ۔ ہمارے ملکی قوانین کی بدولت عینی شاہد کو بغیر کسی دقت کے آگے آنا چاہیے۔ آمدم بر سرِ مطلب، ہمیں لوگوں کو اعتماد دلانا چاہیے کہ وہ ہنگامی صورتِ حال میں اپنی خوشی سے مظلوموں کی مدد کریں ۔ مثال کے طور پر ان رضاکاروں کو اپنی شناخت یا ذاتی تفصیل ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔ اُنھیں فوری طور پر ڈیٹا جمع کرا دینا چاہیے۔ ڈاکٹروں اور عدالتوں کی طرف سے ریسکیو کرنے والوں کو ہراساں کیا جائے نہ خوفزدہ یا پریشان۔ متذکرہ بالا ٹیکنالوجی جیسے ویڈیو کانفرنسنگ کو بیانات لینے کے لیے استعمال کیا جائے۔
شائستگی کی انسانی حدود سے باہر ہمیں حتمی طور پر اور پُر زور انداز میں ادارہ جاتی جرم سے نمٹنا چاہیے۔اگر زخمی کو ہسپتال لانے والا شخص رشتے دار نہیں تو کسی زخمی شخص کو ہسپتال میں رجسٹر کرنے اور داخل کرنے کے لیے کوئی رجسٹرڈ سرکاری اور نجی ہسپتا ل پیسے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔بلا تاخیر زخمیوں کو مناسب علاج مہیا کیا جائے۔ میری تجویز ہے کہ ان اداروں کے سالانہ منافع سے 2 فی صد شدید زخمی ہونے والوں یا شاہراہوں پر حادثات کی صورت میں معذور ہو نے والوں کے لیے مختص کیا جائے۔
ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے تھانوں، ہسپتالوں اور دلوں میںانسانی وقار کو ڈھونڈنا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم ناقابلِ قبول رویوں پر قابو پا سکیں گے ، وہ رویے جو جان بوجھ کر ہر روز سڑکوں اور بڑی شاہراہوں پر سیکڑوں گیلن انسانی خون بہتا ہوا دیکھتے اور اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنی آنکھیں بند کر کے خود سے یہ سوال کریں ©کہ آپ اپنے عزیزواقارب کے ساتھ شہریوں، پولیس اور طبی مراکز پر کیسا سلوک دیکھنا چاہتے ہیں۔ تب آپ کو اس تلخ تصور کا ادراک ہو گا کیوں کہ زندگی کو بدل دینے والے ایسے لمحات وقوع پذیر ہونے کے لیے ایک سیکنڈ لیتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.