Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

تعلیم، دہشت گردی ، اقلیتیں اور پاکستان

دہشت گرد گروپوں کی طرح حقیقت پسندانہ اعدادوشمار گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔بظاہر پاکستان ملک بھر سے دہشت گردوں کو تنہا کرنے کے لیے طالبان مخالف فوجی کارروائیاں کر کے صحیح راستے پر چل رہا ہے۔ اس نے دُنیا کو ایک ایسی کہانی سنائی ہے جسے سنانے کی بہت ضرورت تھی اور یہ کہانی ہے کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے 2014ءسے لے کر اب تک دہشت گردوں کے حملوں میں ستر فی صد کمی آئی ہے۔
یہ تازہ ترین اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ کسی نے تازہ قتلِ عام کے بارے میں سوچا نہیں تھا ، جب 2017ءکے شروع کے مہینوں میں دہشت گردی کے اٹھارہ حملوں میں پہلے ہی ڈھائی سو معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ 637زخمی ہوئے ہیں۔
ہم خوف، دھچکے اور مایوسی کے عالم میں حکومت کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے سیاست دان خود کش بمباروں پر الزام دھرتے ہیں جنھیں ہندوستان کی حمایت حاصل ہے اور جو افغانستان کی سرحد کے راستے ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد حکومتی ترجمان بے چین قوم کو ملکی حدود کے اندر حملوں میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کی گرفتاری کا بتاتے ہیں۔
بیک وقت بلوچستان میں تشدد پھوٹ پڑا ہے ، یہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی صوبے میں چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے لیے نئی تعمیر شدہ گوادر بندرگاہ بھی ہے۔ پاکستان اور چین اس صوبے کے غربت زدہ مکینوں سے ایسی خوش حالی کا وعدہ کر رہے ہیں جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اُنھوں نے ایسی خوش حالی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور شاید کبھی دیکھیں گے بھی نہیں۔
بظاہر علاحدگی پسند جو خلل ڈالنے کی خاطر جدید تنصیبات کو حملے کا نشانہ بنا رہے ہیں ، وعدے اُنھیں متاثر نہیں کر سکتے اور بندرگاہ کے نئے چمکیلے کھلونے اُن کا دل نہیں بہلا سکتے۔ شاید بہلاوے پر مشتمل مسحور کن وعدے اور دل فریب خواب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کو سمجھنے کی کمی ہے۔
پاکستان کی ناکامی جو اب تک چلی آ رہی ہے اور جس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، وہ اس کی ناہلی ہے جس کی بنا پر یہ پہچانا نہیں جا سکا کہ یہ تعلیم میں قومی ایمرجنسی کے درمیان میں ہے ، یہ ایک قرض ہے جو اُنھیں کبھی واپس نہیں کیا جا سکا جو ناانصافی سے ایک طرف کر دیے گئے۔
موقر غیر حکومتی تنظیم الف اعلان کی تیار کردہ پاکستان کی ضلعی تعلیمی رینکنگ 2016ءکے مطابق پاکستان میں تعلیم کے میدان میں جس ضلع کی کارگزاری سب سے خراب رہی وہ ڈیرہ بگٹی تھا۔ یہ نواب اکبر بگٹی کی جائے پیدائش اور بلوچ علاحدگی پسند تحریک کا مرکز ہے۔ یہ ضلع 100میں سے بمشکل 5پوائنٹ حاصل کر سکا۔
بلوچستان کے اضلاع کی اکثریت یعنی 32میں سے27چوٹی کے ایک سو سکولوں میں شامل نہ ہو سکے۔ اس غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ملک کے آخری دس اضلاع میں سے آٹھ بلوچستان کے تھے۔ گوادر کا نمبر 58اور کوئٹہ کا 59ہے۔ یہ دواضلاع صوبے کے سب سے زیادہ پوائنٹ لینے والے ہیں۔ بلوچستان کے اکتیس میں سے صرف آٹھ نے ایجوکیشنل انڈیکس میں پچاس سے زیادہ سکور حاصل کیا لیکن کوئی بھی ضلع ستر سے زائد سکور نہ لے سکا۔
اکیسویں صدی میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ایک معروف سکول میں صرف ایک اُستاد ہو۔ یہی رپورٹ بتاتی ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں 303، گلگتبلتستان میں 281 ، فاٹا میں307 ، خیبر پختون خوا میں4,265، پنجاب میں5,620، بلوچستان میں6,083 اور سندھ میں19,486 سرکاری سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ایک اُستاد تعینات ہے۔
ہمارے ملک میں 43فی صد آبادی ایسی ہے جو کبھی سکول نہیں گئی، اس میںسے55فی صد خواتین اور31فی صد مرد ہیں۔ وہ جو سکول جاتے ہیں، اُن میں سے 41فی صد پرائمری کی سطح پر ہی پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں۔ صوبہ¿ بلوچستان میں ایک طالب علم اوسطاً سکول میں چار سال گزارتا ہے۔ سرکاری سکولوں کو بنیادی ڈھانچا فراہم کرنے کے لیے فنڈز کی کمی ہے۔ اس میں بیت الخلاﺅں اور چاردیواری وغیرہ کی کمی شامل ہے۔ لیکن ضلع کی سطح پر بھی تعلیمی معیار اور طالب علم کا سکول میں ٹھہرنا نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ ان میں اُن کو بھی شامل کر لیں جو دہشت کے نام پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔ غیر زرخیز اور کند ذہن اُن کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔
ایک انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے مئی 2016ءمیں رپورٹ دی کہ صوبہ¿ پنجاب کا جنوبی حصہ جہادی تنظیموں کی بھرتی کا مرکز ہے۔ اس نے یہاں مقامی عسکری گروپوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا ، ان گروپوں کے علاقائی اور بین الاقوامی روابط ہیں اور ان کے پاس لامتناہی وسائل ہیں جنھیں بڑے بڑے مدارس اور مساجد پر پھیلے نیٹ ورک کے ذریعے سے ان پڑھ عوام کو بھرتی کیے جانے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ انقلابی دیوبندی گروپوں جیسے جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ نے ان مدارس کو آباد کر رکھا ہے۔ ہندوستان نے کئی مرتبہ کوشش کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جیشِ محمد پر پابندی لگا دے ۔ اس جماعت پر ہندوستان نے پٹھان کوٹ ائر بیس پر جنوری2016ءمیں حملہ کرنے کا الزام لگایا۔ فرقہ پرست گروپ لشکرِ جھنگوی نے حال ہی میںصوبہ¿ سندھ کے شہر جام شورو کے شمال میں 125کلومیٹر کے فاصلے پر سیہون شریف میںلعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ایک خود کش حملہ آور نے مزار کے احاطے میں خود کو اُڑا لیا۔ اس حملے میں کم سے کم 90افراد مارے گئے اور 350سے زائد زخمی ہوئے۔
دُوسری طرف بین الاقوامی عطیات دہندگان کی طرف سے دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی فنڈنگ کی گئی ہے۔ اس نے پنجاب کے اضلاع مثلاً وہاڑی میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے فنڈز مہیا کیے ہیں۔ یہ جنوبی پنجاب کے اُن اضلاع میں سے ہے جو الف اعلان تعلیمی ڈھانچے کی رینکنگ 2016ءمیں 100میں سے 94.85 سکور کر کے سرِ فہرست رہا تھا۔ یہ رینکنگ ملک کے کسی بھی ضلع بشمول ملک کے دارالحکومت اسلام آباد سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن کیا چیزیں ویسی ہی ہیں جیسی نظر آتی ہیں؟
تعلیمی رپورٹ2015ءکے سالانہ سٹیٹس کے مطابق:
اس ضلع کی 39% طالبات سرکاری سکولوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے مقابلے میں 42فی صد طالبات نجی سکولوں میں جاتی ہیں کیوں کہ اُن کا یقین ہے کہ سرکاری سکولوں میںتعلیم اور جائزے کی کوالٹی بہت خراب ہے۔
اس ضلع کے 22.9فی صد بچے بالکل سکول نہیں آتے۔ 77فی صد بچوں کی عمر تین سے پانچ سال کے درمیان ہے جو کسی پری سکول کے طالب علم نہیں۔
بچوں کا سکول سے سلسلہ¿ تعلیم کو منقطع کر لینا بھی خوف ناک ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اس ضلع میں وہ تمام طالب علم جو کلاس اول میں داخل ہوئے ہیں، اُن میں سے صرف 8.4فی صد جملے پڑھ سکتے تھے۔
آئیے ہم یاد رکھیں کہ یہ اعدادوشمار صرف ایک ضلع سے لیے گئے ہیں، ضلع بھی ایسا کہ جہاں ملک کے سرکاری سکولوں میں بہترین بنیادی ڈھانچا موجود ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں یہ صورتِ حال بہت گھمبیر ہے۔ اسلام آباد کے جڑواں شہر راول پنڈی میں اب تک 155سرکاری سکول بند ہو چکے ہیں۔ وسطی پنجاب کے ضلع شکرگڑھ میںسکول مرجر سکیم کے تحت 455میں سے 195سرکاری سکول بند ہو چکے ہیں کیوں کہ ان سکولوں میں ایک بھی بچہ داخل نہیں ہوا تھا۔بلوچستان کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ صورتِ حال اندرونِ سندھ کے اضلاع اور خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقہ جات میں خراب تر ہو جاتی ہے
آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ زیادہ تر ملکی دہشت گرد انھی اضلاع میں کیوں بھرتی کیے جاتے ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ انھیں کون بھرتی کرتا ہے اور اُنھیں غلط طور پر استعمال کرتا ہے۔ ملک میں دیوبندی مدارس وفاق المدارس کے پرچم تلے باہم متحد ہیں۔ ان کے 18,600مدارس ہیں جہاں دو ملین سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بریلوی مکتبِ فکر کے ادارے تنظیم المدارس کے مطابق 9,000
مدارس کا الحاق اُن کے ساتھ ہے اور تیرہ لاکھ بچے اُن کے پاس زیرِ تعلیم ہیں۔ اہلِ حدیث یا سعودی مکتبِ فکر 1,400مدارس یا سکول چلا رہا ہے ۔ ان کے پاس 80,000سے زائد طلبہ وفاق المدارس السلفیہ کے پرچم تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کہ وفاق المدارس الشیعہ ہا ایرانی مکتبِ فکر 460مدارس میں 18,000طلبہ کو پڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے مدارس میںطلبہ کی تعداد میں دس فی صد سالانہ اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس سرکاری شعبے میں چلنے والے سکولوں میں طلبہ کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
یاد رکھیے، اعدادوشمار چیخ چیخ کر دہائی دیتے ہیں۔
لڑکھڑاتا ہوا سرکاری تعلیمی نظام قوم کی لولی لنگڑی ترجیح کا بد نما الزام ہے اور وہ ہے بد عنوانی اور ایسی روشیں جن کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری خواب میں مدہوش قوم کے پہلے ہی سے سکول جانے کی عمر کے 25ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
چناں چہ اس کو کس نظر سے دیکھا جا سکتا ہے؟
حالیہ سالوں میں امریکا، برطانیہ اور عالمی بنک نے پاکستان کے گرتے ہوئے سرکاری تعلیمی نظام کو سنبھالا دینے کے لیے دولت کا سیلاب بہا دیا ہے کیوں کہ مذہبی انتہا پسندی کو رونے کا یہ کلیدی وسیلہ ہے مگر سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ابھی غیر تسلی بخش ہے۔ یہ صرف نائیجیریا سے بہتر ہے۔ ولسن سینٹر کی ایک حالیہ رپورٹ وضاحت کرتی ہے کہ اگرچہ سرکاری اور نجی دونوں تعلیمی شعبوں میں مجموعی طور پر چار فی صد سے زیادہ خرچ کیا گیا جوعالمی سطح پر تعلیم پر خرچ کرنے کا قابلِ قبول بنچ مارک ہے لیکن اس رقم کو دانش مندی کے ساتھ خرچ نہ کیا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
سرکاری شعبے میں تعلیم کے زیادہ سے زیادہ فنڈز اساتذہ کی تنخواہوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے اساتذہ کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور اس سے ان سکولوں میں تعلیم کی کوالٹی بہتر کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ رپورٹ میں صوبہ¿ سندھ کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں پانچویں اور چھٹی جماعت کے سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹوں کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2012 اور2014 کے درمیان صفر فی صد بہتری آئی۔ دیگر صوبوں میںآنے والی بہتری بھی معمولی تھی۔
مثال کے طور پر صوبہ¿ پنجاب میں تعلیمی رپورٹ کا سالانہ سٹیٹس (اثر) ظاہر کرتا ہے کہ تیسری جماعت میں پڑھنے والے بچے دو ہندسی تقسیم سے پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار تھے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پہلی جماعت کے بچے ہندسوں کی پہچان کرنے کے قابل نہیں تھے۔
میری اپنی کی گئی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سرکاری شعبے کے سکولوں میں 36فی صد اساتذہ کلاس ٹیسٹوں پر بہت زور دیتے ہیں ، اس کے مقابلے میں نجی شعبے میں چلنے والے صد فی صد سکولوں کے اساتذہ باقاعدگی سے ان ٹیسٹوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جائزے یا امتحان کے چھ شعبوں یا ایریا کے نتائج نے کامیابی کے فرق کی ممکنہ وجوہات سامنے آئیں۔ اگرچہ یہ دیکھا گیا کہ نجی سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی نسبت سرکاری سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کے حالاتِ کار کہیں بہتر ہیں مگر پھر بھی نجی سکولوں کے اساتذہ ہر شعبے یا ایریا میں سبقت لے گئے۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی یہ خراب کارگزاری کی وجہ بے رحم دباﺅ اور نوکری سے نکالے جانے کا مستقل خوف ہے ، اس کے بر عکس نجی شعبے میںجذبے سے سرشاراساتذہ ہوتے ہیں۔
ہمارے سرکاری شعبے میں سرمایہ کاری کی توہین آمیز ناکامیوں نے حکومتِ پاکستان پر دباﺅ ڈالا ہے کہ وہ صوبائی تعلیمی فاﺅنڈیشن کے ذریعے سرکاری سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دیں۔
پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے ترجمان قدرت اللہ نج کاری کے چار پروگرام چلا رہے ہیں۔ ان میں فاﺅنڈیشن اسسٹڈ پروگرام ، ایجوکیشن واﺅچر سکیم، نیو سکول پروگرام اور پبلک سکول سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔ پانچواں مسلسل پیشہ ورانہ فروغ کا پروگرام ہے۔ یہ پروگرام اساتذہ کو سکولوں میں مدد فراہم کرنا ہے۔
فاﺅنڈیشن اسسٹڈ پروگرام پنجاب کے تما م 36اضلاع میں چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ تین ہزار پارٹنر سکول شامل ہیں جن میں تیرہ لاکھ بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ فاﺅنڈیشن اچھے پرائیویٹ سکولوں کے ساتھ شراکت کرتی ہے۔ یہ سکول سرکاری فنڈ کے لیے درخواست دیتے ہیں اور فاﺅنڈیشن سکول کے مالک کو ہر داخل بچے کی فیس ادا کرتی ہے۔ کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور ان ٹیسٹوں سے طالب علموں کی کارگزاری کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ خرچ کیے گئے پیسے پیسے کا حساب رکھا جاتا ہے۔
ایجوکیشن واﺅچر سکیم کے تحت رجسٹرڈ غیر سرکاری تنظیموں سے غریب علاقوں میں سکول چلانے کے لیے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ بصورتِ دیگر طالب علموں کو مالی اور معاشرتی مشکلات کے باعث کسی قسم کی تعلیم نہ ملے۔ فاﺅنڈیشن کے تعاون سے اس وقت تین لاکھ بچے رجسٹر کیے گئے ہیں اور وہ 1,365سے زیادہ ایجوکیشن واﺅچر سکیم پارٹنر سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن اپنے نیو سکول پروگرام کے تحت نجی شعبے کے روزگار مہیا کرنے والوں کو دُوردراز اور پس ماندہ علاقوں میں سکول قائم کرنے کو کہتی ہے۔ نیو سکول پروگرام ایسے علاقوں میں سکول قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے جہاں سرکاری سکول کم ہیں یا غیر دست یاب ہیں۔ صوبہ¿ پنجاب میں نیو سکول پروگرام کے تحت 36اضلاع میں 1,478سکول کام کر رہے ہیں۔ ایسا سکول چلانے کی کم سے کم پچاس بچوں کا ہونا ضروری ہے۔ تیس طالب علموں کے لیے ایک اُستاد کا ہونا بھی شرط ہے۔ کم سے کم جماعت کے دو کمرے ہونے چاہییں۔ اس کے علاوہ پینے کے پانی اور بیت الخلا کی سہولت کا ہونا ضروری ہے۔
لیکن سب سے اہم پروگرام پبلک سکول سپورٹ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت حکومت سرکاری شعبے کے ایسے سکولوں کو نجی شعبے کے روزگار مہیا کرنے والے افراد کے سپرد کر رہی ہے جن کی کارگزاری ٹھیک نہیں تھی۔ اس وقت صوبہ¿ پنجاب کے ایک ہزار سرکاری سکول نجی پرائیویٹ کیے جا رہے ہیں اور مارچ 2017ءمیںاہلیت رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں، سکول چین کے مالکان اور اہل افراد کے حوالے کیے جا رہے ہیں ۔
اس سے پاکستان میں سرکاری شعبے کے سکولوں میں موجود افراتفری، خامیوں اور بد نظمی ظاہر ہوتی ہے۔ حکومت سرکاری سکولوں کے ذریعے مفت معیاری تعلیم کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اب یہ تمام ادارے نجی شعبے کو دے رہی ہے اور مجموعی ناکامی کا اعتراف کررہی ہے۔
پاکستان میں نجی شعبے میں کام کرنے والے اساتذہ اب تنخواہ میں باقاعدہ اضافہ اور ملازمت کے دیگر فوائد سے بہرہ ور ہو رہے ہیں لیکن اُن کی کارگزاری اس شعبے کو برباد کر رہی ہے اور نہ صرف ہماری حکومت بلکہ سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ غیر ملکی سرمایہ کار وں کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ شان دار کارگزاری دکھانے والے نجی سکول باقاعدگی سے اساتذہ کی کارگزاری جانچتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ منطقی انسانی وسائل اور اُصولوں سے جڑے رہتے ہیں۔ وہ اساتذہ کے لیے مہارتی فروغ کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ وہ کم متاثر کن اساتذہ کو تدریس سے ہٹا بھی دیتے ہیں۔ سرکاری شعبے میں یہ معاملہ نہیں ہے جہاں ایک دفعہ نوکری ملنے کا مطلب ہے کہ نوکری سے نکالے جانے کے خوف کے بغیر ساٹھ سال کی عمر یعنی ریٹائر منٹ تک ملازمت کی یقین دہانی ہو گئی ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلی کی عمارتوں کے سامنے سرکاری شعبے کے اساتذہ کے حالیہ روڈ بلاک اور احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سرکاری سکولوں کی نج کاری کے خلاف ہیں۔ اُنھوں نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ وہ اساتذہ کی ایسوسی ایشنوں کے پریشر گروپ تشکیل دے سکتے ہیں اور ریلیاں نکال سکتے ہیں۔یہ پریشر گروپ بڑے بڑے جلوس نکالنے اور ہڑتالیں کرنے کے اہل ہیں۔ جمہوری حکومتوں کے پاس جماعت کے کمروں کے اندر اور باہر بری کارگزاری کو تسلیم کرنے کے لیے جرات کا فقدان ہے۔

سادہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو تعلیمی بحران کا سامنا ہے
جس کی پہلے سے کوئی مثال نہیں ملتی کہ سکول جانے کی عمر کے تمام بچوںیعنی 25ملین کی نصف تعداد پہلے سے سکولوں میں موجود نہیں۔ ایک لمحے کے لیے یقین نہ کریں ، اکسیرِ اعظم یا اصلاح نجی سکولوں کے پاس ہے ، ان سکولوں کی مندرجہ¿ ذیل درجہ بندی ہے:
اشرافیہ
مشنری
فرنچائز
سٹینڈرڈ
کم فیس
مذہبی (مدارس)
غیر رسمی (اکیڈمیاں ٹیوشن سینٹر)
اشرافیہ، مشنری اور فرنچائز سکول اتنی فیس لیتے ہیں جو والدین کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔
ایک سیلو لر کمپنی میں ٹرانس مشن پلاننگ مینجر عمر ثاقب ان کا موازنہ مافیا سے کرتے ہیں، اس لیے کہ خود اُن کی تعلیم اشرافیہ کے لیے بنائے گئے ایک سکول میں ہوئی تھی۔اُن کی رائے میں ” اشرافیہ کے بچوں کے لیے بنائے گئے نجی سکولوں میںیقیناً کوالٹی دیگر سکولوں کی نسبت بہتر ہے ، لیکن فیس کا معیار ہماری زندگی کی کوالٹی کو متاثر کرتا ہے۔ “یہ سکول درخواست فیس، رجسٹریشن فیس، سیکیورٹی ڈیپازٹ، پیشگی ماہانہ فیس، سالانہ اخراجات اور کترنے کا کام یہیں ختم نہیں ہوتا۔
متلاشیانِ علم کے والدین ہر ماہ فیس میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے پیسے بہاتے رہتے ہیں ۔ بہت سے فضول اور بے کار اخراجات سے اُن کی جیبوں پر بوجھ پڑتا رہتا ہے جیسے فلاور ڈے، آرٹ ڈے، ڈانس ڈے، گیم ڈے، مووی ڈے اور تفریحی دن۔ ان بھیس بدل کر کی جانے والی سرگرمیوں میں تسلسل کے ساتھ سکول کے اکاﺅنٹ میں رقم آتی رہتی ہے۔ سکولوں نے سروسز سینٹرز بھی خود ہی بنائے ہوئے ہیں جہاں سے والدین سٹیشنری، کتابیں، کاپیاں ، وردی وغیرہ لیتے ہیں۔ اسی طرح آمدورفت اور متفرق اخراجات کے پیسے بھی سکول کماتا ہے۔
جو طالب علم کلاس روم کی راہ لیتے ہیں ، بعض اوقات انھیں ناقابلِ تسخیر رکاوٹوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹیں سادہ مگر نفسیاتی طور پر حقہ پانی بند کر دینے والی اور غنڈہ گردی والی ہاتی ہیں۔
ایک ایسے نظام میں جہاںخاندانوں کے مالی حالات کی وجہ سے مثالی طالب علمو ں کے پاس بھی کوئی امکان نہ ہو کہ وہ اپنی ملازمت کا انتخاب کر سکیں۔وہ جن کے پاس قابلِ برداشت متبادل موجود ہوں، اُنھیں جہادی تنظیمیں بھرتی کر لیتی ہیں اور ہماری سرحدوں سے اُس پار کی سلطنتیں اُنھیں سپانسر کرتی ہیں۔ بہت زیادہ پیوند کاریوں، ناہلی، لالچ، دراڑوں اور جہالت کی وجہ سے ہماری سرحدوں کے اندر فرحت و مسرت کا کوئی اشارہ موجود نہیں۔
نمایاں طلبہ جنھیں ہمارے ملک کا فخر ہونا چاہیے ، وہ ان رکاوٹوں میں پڑ جاتے ہیں ، پھر بھی کچھ محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ چناں چہ ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے اثر قبول کرنے والے اور اعلیٰ کارگزاری دکھانے والے طلبہ کومشکل صورتِ حال میں ڈال دیتے ہیں۔ کیاا س کا کوئی قابلِ قیاس حل موجود ہے؟
آئیے حیران کن اعداد کو ایک طرف رکھیں اور ان میں سے چند ایک کو سنیں۔ بہت سی دیگر لڑکیوں کی طرح اُمِ عمارہ نے اپنی ترقی پسندتعلیم کا آغاز ایک معروف نجی سکول سے کیا۔ اس کے بعد وہ ایک سیکنڈری سکول میں چلی گئی جہاں اُس نے سائنس کے مضامین پڑھے۔ لیکن جلد ہی اُسے اور اُس کے خاندان کو معلوم ہوا کہ اُس کے قصبے میں اہل ٹیوٹرز کی کمی ہے جو انٹرمیڈیٹ کی سطح پر صحیح راہ نمائی کے طریقے اور تحریک فراہم کر سکیں۔ مزید یہ کہ اس علاقے میں کوئی سائنس کالج نہیں تھا۔ چناں چہ عمارہ نے اپنے محنت کرنے والے جذبے کو چھوڑااور وہ انسانیات کی طالبہ بن گئی۔ اُس نے اپنے اختیاری مضامین حیاتیات اور کیمیا کو بدل کر جغرافیہ اور معاشرتی علوم چن لیے ۔ اُس نے انٹر کا امتحان پاس کیا، بعد ازاں بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ اُس نے لاہور ویمن یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور امتیاز کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اُس نے طلائی تمغا حاصل کیا۔ پھر اُس نے اے پلس گریڈ کے ساتھ ایم۔فل کیا۔ اب وہ فخر سے یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اب وہ پاکستان کی اُن اٹھارہ فی صد خواتین کا حصہ ہے جو دس سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے سکول جاتے ہیں۔
یونیسکو کے ادارے ای۔ایف۔اے گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ 2013کے مطابق82فی صد پاکستانی خواتین دس سال کی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں۔
امِ عمارہ بجا طور پراپنے کندھوں پر تمغے سجانے کی حق دار تھی ۔ اُس نے چار بار پنجاب پبلک سروس کمیشن کا مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ لیکن وہ اپنے خوابوں کی زمین پر اترنے میں ناکام رہی۔ وہ دھاندلی زدہ انٹرویو کے مرحلے کی وجہ سے ناکام رہی جہاں رشوتیں اور سیاسی حوالے اس طرح کی ملازمت کے لیے عام ہیں۔ ملازمت کے وہ متلاشی جو بد عنوان حکام کی مٹھی گرم نہیں کر سکتے یا وہ جن کے پاس طاقت ور لوگوں کے حوالے نہیں ہوتے، وہ شان دار اسناد رکھنے کے باوجود کہیں نظر نہیں آتے۔پاکستان میں حزبِ مخالف کی ایک بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ سابقہ کرکٹر عمران خان نے اس متشددانہ کردار کے خلاف ”لاک ڈاﺅن اسلام آباد“ کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

امِ عمارہ اب تیس سال کی ہو چکی ہے اور وہ ایک مقامی نجی سکول میں پڑھاتی ہے۔ وہ اپنے اور اپنے بچے کے لیے بمشکل دس ہزار روپے (ایک سو امریکی ڈالر) ماہانہ کماتی ہے ۔ وہ اپنے خاندان کی مدد کرنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتی۔ اُس کے بچپن کے خواب تلخ حقیقت بکھر گئے ہیں۔
عظمیٰ (حفاظتی تدبیر کی خاطر نام روک لیا گیا ہے) خیبر پختون خوا میڈیکل یونی ورسٹی میں ایم۔ایم۔بی۔ایس کی طالبہ ہے۔ اُس کا تعلق خیبر پختون خو ا کی وادیِ سوات سے ہے۔ اُس کا تعلق اُس انتظامی علاقے سے ہے جہاں طالبان نے 2007ءمیں خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی۔
بنیاد پرست سیاسی تحریک کے مضبوط گڑھ کے زمانے میں یہاں چار سو سکول مسمار کر دیے گئے ، تقریباً چالیس ہزار خواتین کو تعلیم کے حصول سے محروم کر دیا گیا۔ ایک سو ستر سکولوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، ان سکولوں پر تشدد کیا گیا یا ان پر بمباری کی گئی۔ مینگورہ شہر جہاں سے عظمیٰ کا تعلق ہے، دس سکولوں نے نافرمانی کرتے ہوئے سکول کھولنے کی کوشش کی تو عسکریت پسند کمانڈروں کے حکم پر اُن کی دیواریں اور بنیادیں مٹا دی گئیں۔ عظمیٰ اور اُس کے والد جو اُستاد تھے، وہاں سے بھاگے اورنوشہرہ میں واقع داخلی طور پر بے گھر افراد کے لیے قائم کیے گئے پناہ گزین کیمپ میں چار ماہ رہے۔ وہ اُس وقت تک اُس کیمپ میں مقیم رہے جب تک پاک فوج نے اس علاقے سے عسکریت پسندوں کا مکمل طور پر صفایا نہیں کر دیا۔
اس کرب ناک آزمائش کے باوجود اور اپنے والد کی مدد اور راہ نمائی سے عظمیٰ سوات میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکنڈری سکول کے امتحان میں چودھویں اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی۔ وہ اب خیبر پختون خوا میں میڈیکل یونی ورسٹی کی طالبہ ہے۔ ”جب سے طالبان نے ہمیں پڑھائی سے روکا، میری بیس فی صد ساتھی طالبات سکول کبھی نہیں گئیں، یہاں تک کہ حالات کے معمول پر آ جانے کے بعد بھی وہ واپس سکول نہیں گئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان لوگوں کا کیا جائے جن کا خیال ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر کے آزاد خیال اور متکبر بن جاتی ہیں اور یہ کہ اُنھیں صرف اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں اور سسرالیوں کی گھر میں رہ کر خدمت کریں۔“حیران عظمیٰ نے کہا۔
ایک موقع جو تقریباً ہاتھ سے نکل چکا تھا، عظمیٰ نے لاپروائی سے کندھے جھاڑے اور بالآخر ایک شان دار امتیاز حاصل کر لیا ، کم از کم یہ کہ اُس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اُس نے نجی تعلیم کے حصول کو کیوں منتخب کیا۔
اندرابی وغیرہم (2008)کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نجی سکول کے درمیانے درجے کا طالب علم اسی جماعت کے سرکاری شعبے کے چوٹی کے تیس فی صد طلبہ سے بہتر کارگزاری دکھاتا ہے۔
2012ءمیں جاوید وغیرہم نے بتایا کہ فطری صلاحیتوں میں کسی فرق کے نہ ہونے کے باوجودنجی سکولوں کے طالب علم اپنے ہم عمر سرکاری سکولوں کے طالب علموں سے بہتر کارگزاری دکھاتے ہیں۔

اس نے ایک نجی سکول کے منافع کے وجود کو بھی نمایاں کیا، شاید اس کی وجہ تعلیم کی بہتر فراہمی یا سکول میں سہولیات ہوں جن سے سرکاری سکول محروم ہیں۔
اسلم (2009)نے بتایا کہ نجی ایلیمینٹری سکول کے طلبہ کا سرکاری سکول کے طلبہ سے مقابلہ کیا جائے تو نجی سکولوں کے طلبہ کی واضح برتری نظر آتی ہے۔ سرکاری اور نجی سکولوں کے اساتذہ کی غیر حاضری کا تناسب ایک نسبت اٹھائیس ہے۔
اسلم اور کنگ ڈم (2011) نے نشان دہی کی کہ کامیابی کے اس فرق کی وجہ نجی سکولوں کے استادوں کا موثر جواب دہی کا نظام ہے، اس کے علاوہ ان سکولوں میںتنخواہوں میں اضافے کو اساتذہ کی کارگزاری سے مشروط کرنا بھی ہے۔
لیکن عظمیٰ اس سے الگ بات کہتی ہے ۔ وہ تحقیق اور شماریات کے فقدان کا ذکر کرتی ہے۔ جب وہ فرض کرتی ہے کہ ”سرکاری سکولوں میں کیوں تعلیم حاصل کی جائے جب کہ وہاں اُستاد نہیں ہیں اور اگر اُستاد ہیں بھی تو وہ پڑھاتے نہیں ہیں۔“
یہ دیکھنا بھی آسان ہے کہ جب تک سرکاری تعلیمی نظام کو نہیں بچایا جائے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ جس قدر بچے سکول سے باہر ہوں گے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں میں اسی قدر زیادہ بھرتی ہو گی۔
غریب خاندان ا کثراپنے بچوں کو مذہبی تعلیمی اداروں (مدارس) میں بھیجتے ہیں۔یہ مدارس معاشرے کے فراہم کردہ فنڈز سے چلائے جاتے ہیں ۔دُوردراز علاقوں میں واقع سرکاری سکول جنھیں فنڈز کم ملتے ہیں اور جو بد نظمی کا شکار ہیں، ان علاقوں میں مدارس کی تعداد سرکاری سکولوں سے زیادہ ہے۔
حبیب علی ایک غریب خاندان کی آنکھوں کا تارا ہے۔ وہ کسی زمانے میں سرکاری سکول کا طالب علم تھا۔ اُس کا والد رُوح اللہ سرکاری سکول کے اُستاد کی نجی ٹیوشن فیس ادا کرنے کا متحمل نہیں تھا ۔ اُس کے اُستاد نے کہا کہ وہ ایک کند ذہن طالب علم تھا اور وہ کبھی سیکھ نہیں سکیں گے۔
حبیب علی ایک مدرسے میں داخل ہو گیا اور اِس کند ذہن قرار دیے جانے والے بچے نے ایسی عمدہ کارگزاری دکھائی کہ اُس نے قرآنِ مجید حفظ کر لیا جس کے 77,449 الفاظ، 6,000آیات اور 114 سورتیں ہیں۔ وہ تفسیر، حدیث ، فقہ اور عربی سیکھ رہا ہے۔
سعودی عرب اور ایران اپنے جہادی اغراض کے لیے ہمارے بچوں کو سرگرمی سے بھرتی کر رہے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہماری سرحدوں کے اُس پار سے دولت ہمارے ہاں بھیجی جا رہی ہے۔ چوں کہ پاکستان میں معیاری تعلیم کا حصول انتہائی مہنگا ہے، اس لیے غریب خاندان اپنے بچوں کو مدارس میں بھیج دیتے ہیں۔ یہ مدارس زیادہ تر فاٹا اور جنوبی پنجاب کے پہاڑی اور غیر آباد علاقوں میںواقع ہیں۔
بچوں کو معیاری کھانا ، ائر کنڈیشنڈ رہائش اور پر کشش ماہانہ وظیفہ ملتا ہے لیکن جوں ہی وہ گریجویٹ ہوتے ہیں، اُن کے اساتذہ اُنھیں انقلابی اسلام پسند بنانے کے لیے غلط اور ناخوش گوار طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ گریجویٹ کو اسی مدرسے میں اُستاد منتخب کیا جا سکتا ہے یا اُنھیں جہادی تربیتی مراکز میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ انقلاب پسندوں کو شہادت کے کاموں کے لیے منتخب کر لیاجاتا ہے ، یعنی خودکش بم حملوں کے لیے۔ پاکستان کی فوج نے بارہا ان تربیتی مراکز کو بند کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے۔
فرحت ارشاد نامی ایک عیسائی طالب علم ایک مقامی نجی سکول میں زیر تعلیم ہے اور اِس سال سیکنڈری سکول امتحان کی تیاری کر رہاہے۔ لیکن اُس کا ذہن سوچتا ہے کہ اُس کے ساتھ حقارت آمیزرویہ کیوں برتا جاتا ہے۔ زندگی اس قدر غیر منصفانہ اور گھٹیا ہو سکتی ہے کہ اُسے سکول میںپانی پینے کے لیے اپنے ساتھ گھر سے گلاس لانا پڑتا ہے۔ ”اگر میں عام گلاس کو ہاتھ لگا لوں تو وہ اسے بار بار دھوتے ہیں۔ میں اُن کا ”مسلم گلاس“ چھوتے ہوئے توہین محسوس کرتا ہوں۔“فرحت کہتا ہے۔
اگرچہ آئینِ پاکستان اُسے ”اسلامیات“ کے لازمی مضمون کی جگہ ”اخلاقیات“ پڑھنے کا حق دیتا ہے، لیکن فرحت کو ”اخلاقیات“ کا کوئی علم نہیں کیوں کہ اُس کے سکول میں اس مضمون کا کوئی اُستاد نہیں ہے۔ اس کے بجائے اُسے ”اسلامیات“ پڑھنا پڑتی ہے اورغور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ سال اُس نے امتحان میں 85فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ ”میں اخلاقیات کا مضمون کیسے رکھ سکتا ہوں جب اس مضمون کا اُستاد ہی کوئی نہیں۔ایک معاندانہ ماحول میں اگر میں اخلاقیات کا مضمون چنتا ہوں تو صلے میں مجھے نفرت ملے گی۔ “ عیسائی طالب علم نے پوچھنے پر جواب دیا۔
”پہلے میں سرکاری سکول میں پڑھتا تھا اور اب نجی سکول میں ہوں۔ “ اُس کی رائے ہے کہ اگرچہ اُس کے موجودہ ماحول میں ذرا کم سختی ہے تاہم اقلیتوں کے ساتھ نفرت آمیز رویہ یکساں ہے۔
شاید یہ بچپن کے ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی والے واقعاتی کیس سے زیادہ کچھ بھی نہ ہو ، ایک شرم ناک تقریب جس کی مہذب معاشروں میں اجازت نہیں دی جاتی۔ یا شاید ہمیں پاکستان میں کم سے کم اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ لاشعوری طور پر ہماری نئی نسل کواُن کے تشکیلی سالوں میں پریشان کن پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی بہت سی کتابوں میں ترچھے تناظر پیش کیے جا رہے ہیں کہ جن سے ہماری ا دُوسرے مذاہب کے بارے میں سوچ اور تحمل پر اثر پڑتا ہے۔ یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
معاشرتی علوم: جماعت چہارم، ص 83
”پاکستان کے مسلمانوںنے ہندوستان جانے والے ہندوﺅں اور سکھوں کو تمام سہولتیں فراہم کیں۔ لیکن ہندوﺅں اور سکھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کودونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اُن کے قافلوں، بسوں اور ریل گاڑیوں پر حملے کیے۔ چناں چہ تقریباً ایک ملین مسلمان پاکستان آتے ہوئے راستے میں شہید ہوئے۔“
معاشرتی علوم: جماعت ششم، ص 97
”عربوں کی فتح سے پہلے لوگ بدھ مت اور ہندوﺅں کی تعلیمات سے بیزار تھے۔“
معاشرتی علوم: جماعت ہفتم ص 13
”کچھ یہودی قبائل عرب میں رہتے تھے۔وہ کارکنوں اور کسانوں کو بہت اُونچی شرح سود پر قرض دیتے اور اُن کی کمائی ہتھیا لیتے۔ اُنھوں نے روزافزوں بڑھتے ہوئے سود مرکب کی وجہ سے پورے معاشرے کو اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا تھا ۔“
معاشرتی علوم: جماعت ہفتم، ص 43
عیسائی اقوام گزشتہ تین صدیوں سے مسلم دُنیا کے ممالک کو اپنا سرنگوں بنانے کے لیے ننگی جارحیت کی سازشیں کر رہی ہیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں کا مسلمانوں سے واسطہ پڑا اور اُنھیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی ثقافت اُن کی ثقافت سے کہیں بہتر تھی۔“
کوئٹہ بلوچستان سے کامران حبیب بنگول زئی نامی طالب علم کا تعلق سب سے بڑے بلوچ قبائل میں سے ایک قبیلے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک نجی یونی ورسٹی سے ایم۔بی۔اے کی ڈگری کر رہا ہے۔ 2015ءمیںجب وہ گھر جا رہا تھا تو اُسے ایک بلوچ علاحدگی پسند تنظیم نے اغوا کر لیا ۔ اپنے گھر سے ایک ہزار کلومیٹر دُور پڑھنا اُس کا انتخاب نہیں بلکہ ”مجبوری“ تھی۔ کامران نے بتایا کہ ”میں نے ماسٹرز آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں بلوچستان یونی ورسٹی میں داخلہ لیا لیکن میں نے دیکھا کہ وہاں باقاعدگی سے کلاسیں نہیں ہوتی تھیں۔ اساتذہ نااہل تھے یا پھر آتے ہی نہیں تھے۔ چناں چہ اپنے قیمتی وقت کو بچانے کے لیے میرے خاندان نے مجھے اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اب بہت بہتر ہے اور میں اپنے مستقبل کے بارے میں خاصا پُر امید ہوں۔“
کامران کو اُس کے لیپ ٹاپ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر دو ماہ کے بعد اُسے اُس وقت رہائی ملی جب پاکستانی فوج نے اُس کے اغواکاروں کے ٹھکانے پر چڑھائی کی۔ اب وہ چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے پر کام کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ ملٹی روڈ نیٹ ورک منصوبہ ہے جو گوادر کی گہرے پانیوں والی بندرگاہ کو چین کے ساتھ ملائے گا۔ اگرچہ کامران زیادہ پر امید نہیں لیکن اس سے ہزاروں افراد کو صنعتی زون میں روزگار ملے گا۔
کامران اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پنجاب سے دو سو لڑکوں کو سرکاری خرچ پر چینی زبان سیکھنے کے لیے چین بھیجا گیا ہے ۔ اسے حیرت ہے کہ بلوچستان سے کسی ایک کو بھی کیوں نہیں بھیجا گیا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر چین پاکستان اقتصادی منصوبہ واقعی بلوچستان کے لیے ہے تو اس کے عوام خود کو اس کا حصہ کیوں نہیں سمجھ رہے؟اُس نے حال ہی میں بندرگاہ کے حکام کی طرف سے درجہ¿ چہارم کے ملازمین یعنی کلرکوں، خاکروبوں کے لیے دیے گئے ایک اشتہار کی طرف اشارہ کیا۔اُس نے نوٹ کیا کہ یہ معمولی اسامیاں بھی اوپن میرٹ پر پُر کی جائیں گی۔ ”یہاں تک کہ ان اسامیوں کے لیے بھی ہمارے لیے کوئی کوٹا نہیں ہے۔
بلوچستان کے عوام اچھی اسامیوں کے لیے درخواست دینے کے اہل نہیں ہیںکیوں کہ وہ مطلوبہ اہلیت اور تجربے کے مالک نہیں ہیں۔یوں لگتا ہے چین پاکستان راہ داری منصوبہ بلوچستان کے لیے نہیں ہے۔ یہ کسی اور کے لیے ہے۔“ کامران نے افسردہ لہجے میں کہا۔
انو ویٹو اینڈ کری ایٹو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں مردوں کی شرح خواندگی 39فی صد جب کہ خواتین کی 27فی صد ہے۔ لیکن الف اعلان کے اعدادوشمار اس سے مختلف ہیں۔ ان کے مطابق مردوں کی شرح خواندگی 37فی صد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں خواتین کی شرح خواندگی 15فی صد ہے ۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے (پاکستان کے کل رقبے کا 49فی صد) میں 12,500پرائمری، سیکنڈری اور ہائی سکول ہین۔ان میں سے زیادہ تر یعنی تقریباً سات ہزار ایک ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ بعض اوقات یہ اکیلا کمرا بھی بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ ایک ہی اُستاد ہوتا ہے۔ آدھی آبادی کی تعلیم تک رسائی نہیں ہے اور سکول جانے کی عمر کے 66فی صد آبادی پہلے ہی سکولوں سے اپنا سلسلہ منقطع کر چکی ہے۔
”اثر“ کی رپورٹ سے انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے معاشرے کا غریب ترین کوارٹائل (87% سرکاری سکولوں میں داخل ہوتا ہے جب کہ بقیہ 13فی صد بچے نجی سکولوں میں جاتے ہیں۔ امیر ترین کوارٹائل کے سب سے زیادہ تعداد میں بچے (39%)نجی سکولوں میں جاتے ہیں جب کہ ان کی سب سے نچلی تعداد(61%) سرکاری سکولوں کا رُخ کرتی ہے۔
جب کہ ہماری قوم وہ ہے کہ جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جنھیں بیرونی طاقتوں سے بچانا ہے لیکن سب سے خطرناک اور نقصان دہ دھماکا ہماری سرحدوں کے اُس پار ہمارے دُشمن نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم نے اپنے کرچی کرچی اور خستہ حالت نظامِ تعلیم کی اصلاح نہ کی اور اس میں بہتری نہ لائے تو یقینی طور پر آگ کے شعلے ہمارا انجام اور مقدر ٹھہریں گے۔
آئیے ایک لمحے کے لیے اعداد بھول جاتے ہیں۔
امِ عمارہ، عظمیٰ، حبیب علی، فرحت، کامران، حبیب بنگول زئی اور لاکھوں دُوسروں کو کون سمجھائے گا کہ جو پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ اپنے ساتھی انسانوں یا پاکستان کی پروا کیوں کریں جب اُن کی پروا نہیں کی گئی تھی؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.