Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ

تحریر و تحقیق

وقاص احمد خان

کیا کوئی ایسا ملک بھی ہے جو اپنے صدر یا وزیر اعظم کے دورے سے پہلے اپنی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور دورے کے بعد آرمی چیف کو ہفتے بھر کے طویل ترین دوروں اور اعلٰی سطحی ملاقاتوں کے لیے امریکہ بھیجتا ہو۔ جواب ہے پاکستان ۔ ایک ایسا ملک جس نے اپنی قومی زندگی کا قریباً نصف فوجی آمریتوں کے سائے میں گزارا ہے کے لیے یہ اچنبھے کی بات ہر گز نہیں۔ امریکہ جس نے حال ہی میں پاکستان کی سول حکومت کی مدد کے لیے پانچ سالہ امدادی پیکج کی منظوری دی ہے نے ہمیشہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات رکھنے کی بدر جہا کوشش کی ہے۔ شائد ہی ایسا ہوا ہو کہ کوئی اعلٰی امریکی حکومتی عہدیدار پاکستان کے دورے پر آیا ہو اور اس نے ٹاپ ملٹری قیادت سے ملاقات نہ کی ہو۔ تنقید کرنے والے اسے جمہوریت کی نفی قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ گلوبل ٹیرارزم انڈیکس کی جانب سے شائع کی گئی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں میں تیسرے نمبر پر موجود ہے ۔ادارے نے 2013 میں دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں کی فہرست اور اس سے ہلاک ہونے والوں کے اعدادوشمار تیار کیے ہیں جس کے مطابق پاکستان، عراق اورافغانستان کے بعد دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جبکہ نائجیریا اور شام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔اس سلسلے میں گروپ نے دنیا بھر میں دہشت گردی کا ذمے دار چار تنظیموں کو قرار دیا ہے جہاں شام میں داعش، افغانستان میں طالبان، نائجیریا میں بوکو حرام جبکہ دنیا کے مختلف حصوں میں القاعدہ کو ذمے دار قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے 66 فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں ہونےوالی ہلاکتوں میں سے 82 فیصد ہلاکتیں عراق، افغانستان، پاکستان، نائجیریا اور شام میں ہوئیں۔گلوبل ٹیرارزم انڈیکس کے مطابق امریکا کی جانب سے 9/11 حملے کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے بعد دنیا بھر میں دہشت گردی میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔انڈیکس کے مطابق 2013 میں پاکستان میں 1900 سے زائد پرتشدد واقعات ہوئے جن میں 2 ہزار 345 افراد ہلاک جبکہ 5 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔دہشت گردی کے انڈیکس میں امریکا میں 9/11 کو ہونے والے حملے کے بعد دنیا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاکستان اور یمن میں ڈرون حملے اور دنیا بھر میں پراکسی فوجوں پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بش انتظامیہ کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ، عراق اور افغانستان میں جنگ اور دنیا بھر میں مختلف آپریشن کے باوجود دہشت گردی کم کرنے میں ناکام رہی جبکہ اس دوران چار ٹریلین ڈالر سے زائد کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔انڈیکس نے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان جنگجوو


¿ں کی تعداد 36 سے 60 ہزار ہے، داعش کے پاش 20 ہزار، القاعدہ کے پاس چار ہزار سے 17 ہزار جبکہ بوکو حرام کے پاس نو ہزار سے زائد شدت پسند موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیسے ممکن ہے کہ ملک عزیز کی حفاظت کے نگران ادارے افواج پاکستان کی مرضی اور مشاورت کے بغیر پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ پاکستانی میں مکمل سویلین حکومت قائم کرنے کا خواب اس وقت تک خواب ہی رہے گا جب تک ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس خطرناک عفریت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو جاتا۔

 پھر اپنے پیش رو جرنیلوں کے برعکس میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر ) کے بھائی اور میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) کے بھانجے جنرل راحیل شریف نے فوج کو میدان جنگ میں اتار کر دو سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے بلکہ ہزاروں دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور حکومتیں حیران ہیں کہ جو کام دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی فوجیں 14سال میں نہ کر سکیں وہی کام پاکستانی فوج نے دو سال میں کیسے کر دیا۔ امریکی سینیٹر جان مکین نے پاک فوج کے سربراہ سے اپنی حالیہ ملاقات میں اسی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج نے دہشت گردوں کیخلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پاک فوج کے کئی بہادر جوان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہید ہوئے۔ مشکل دور میں پاکستان سے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔طالبان کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔جان مکین نے کہا کہ مشکل دور میں پاکستان سے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مل جل کر کام کرنا پاکستان اور امریکہ کیلئے بہتر ہوگا۔مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میںآنے کے بعد ایک سال پاکستان تحریک انصاف کی طرح طالبان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کا کھیل رچایا۔ کراچی ایئرپورٹ پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعداتوار 15 جون 2014ءکو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن“ضرب عضب” کا آغاز کیا۔ آپریشن ضرب عضب میں اب تک مختلف کارروائیوں کے وران 2800 کے قریب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاجاچکا ہے، جبکہ آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے350 سے زیادہ افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔

 جنرل راحیل شریف کے امریکا پہنچنے پر سیکریٹری دفاع، نائب سیکریٹری دفاع اور چیئرمین نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، “ہم جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا پر ان کے شکر گزار ہیں اور دوطرفہ دفاعی تعلقات کے فروغ کے لیے ان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے خواہاں ہیں۔”اس دورے میں سپہ سالار نے پنٹاگون میں سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ اور سینٹ کام کے سربراہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی آرمی کے چیف آف اسٹاف جنرل مارک مائیلی سے بھی ملاقات کی تھی، جبکہ وہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن سے بھیملے۔سیاسی راہنماﺅں سے ان کی ملاقاتوں میں سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری اور امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے وائٹ ہاﺅس میں ہونے والی ملاقاتیں سب سے نمایاں رہیں۔ اس سے پہلے پینٹا گان نے بیان دیا تھا کہ پاک فوج کے سپہ سالا ر بغیر دعوت کے امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں اور پینٹا گان ان کی درخواست پر تمام ملاقاتوں کا اہتمام کر رہا ہے لیکن جنرل راحیل کی امریکی حکام سے ملاقاتوں کی اس فہرست سے پنٹاگون کے اس بیان کی بھی نفی ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں کامیابیاں جاری ہیں اورفوج کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے، بلکہ عوام کی جانب سے جنرل راحیل شریف اور مسلح افواج کو خراج تحسین بھی پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس آپریشن کا ہی نتیجہ ہے کہ اب کراچی میں بھی امن و امان تیزی سے بحال ہو رہا ہے اور بہت حد تک جرائم پر قابو پالیاگیا ہے۔ اس درمیان جنرل راحیل شریف کی حمایت میں پوسٹر اور بینرز لگنے شروع ہوگئے۔ ابھی جبکہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے ا


±نکی ملازمت میں توسیع کی مانگ کی جانے لگی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقبولیت پر خوشی ہے، لوگ اپنے سپہ سالار سے پیار کرتے ہیں، اس میں کسی کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ خورشید شاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں آرمی چیف کے پوسٹر اور بینرز کے لگنے پر گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ عوام صرف اور صرف محبت میں پوسٹر لگارہے ہیں ( یہ بات اور ہے کہ خورشید شاہ کے رہنما آصف زرداری تو گھبراکر ملک ہی چھوڑ کر چلے گئے)۔ سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف بہت اچھا کام کر رہے ہیں، جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے، فوجی قیادت بدلی تو سارا کیا دھرا ختم ہوجائے گا، سسٹم تبدیل ہوا تو سب صفر ہوجائے گا۔ خوشی ہے کہ آرمی چیف کی پاکستان میں شہرت ہے، ایک آدمی تو ایسا ہے جو پاکستان میں مشہور ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ “موجودہ آرمی چیف ایک پروفیشنل سپاہی ہیں اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں انھوں نے ان تھک محنت کی وجہ سے نہ صرف فوج میں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں عزت کمائی ہے”۔

چیف جنرل ر احیل شریف نے وائٹ ہاﺅس میں امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سوزن رائس سے بھی ملاقات کی جس دوران علاقائی سلامتی اور افغانستان کے مفاہمتی امور پر تبادلہ خیال کیاگیا جبکہ دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ جبکہ آرمی چیف نے وائٹ ہاﺅس میں ڈپٹی سیکیورٹی ایڈوائزرایورل ہینس سے ملاقات کی۔ انہوں نے انسدادہشتگردی اورہوم لینڈ سیکیورٹی پر تعینات صدراوباما کی اسسٹنٹ لیزا موناکو سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں باہمی سیکیورٹی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پاکستان اور چین امریکا اور ہندوستان کی اس خطے میں پالیسی کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور چوں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے لہذا اسلام آباد کو کونے میں کھڑا کر کے بے بس کرنا واشنگٹن اور دلی کے اتحاد کا ایک واضح ہدف ہے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود امریکا بہت سے دوسرے معاملات پر پاکستان کے ساتھ تعلقات خاص حد سے زیادہ خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں سب سے کلیدی معاملہ افغانستان میں استحکام ہے۔ کھربوں ڈالر لگانے کے بعد امریکا افغانستان میں ایک بدترین شرمندگی سے دوچار ہے۔ اصطلاحات کا جنگل اگانے کے باوجود وہ افغانستان کی ناکامی کو چھپانے سے قاصر ہے۔ مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کنڑ اور نورستان میں بیٹھے ہوئے اسلحہ بردار جتھے جو کارروائیاں کر رہے ہیں اس کی براہ راست ذمے داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔ اگر جان کیری عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں معاہدہ کروا سکتے ہیں تو ان جتھوں کے ہاتھ بھی باندھوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو فوجوں کے ساز و سامان کی واپسی‘ مشرق وسطی میں موجود اسلحہ بردار گروپوں کی اس علاقے میں آمد‘ ہندوستان کے ساتھ تعلقات وہ اہم معاملات ہیں جہاں پر امریکا اور پاکستان کے فوجی ادارے با معنی بات چیت کر سکتے ہیں۔ہماری آمرانہ سیاسی تاریخ کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کو متنازعہ بنایا گیا ہے۔ مگر اس ضمن میں جنرل راحیل شریف ایک مضبوط اور غیر متنازعہ کوائف رکھتے ہیں۔عمران خان کے دھرنے نے فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں جو سوال اٹھائے تھے‘ وہ ختم ہو چکے ہیں۔ فوج جمہوری تسلسل کے حق میں ووٹ ڈال چکی ہے۔ اگرچہ امریکا میں چند ایک پاکستانیوں سمیت ایسے فنکاروں کی کمی نہیں ہے جو اس تصور کی تشہیر کریں کہ جیسے ابھی بھی جمہوریت خطرے میں ہے۔ لیکن معروضی حقائق اس سے کافی مختلف اور مثبت ہیں۔پاکستان میں بھی پی ٹی آئی سمیت چند ایک سیاسی جماعتیں جو اب سیاسی تنہائی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر ذریعہ اختیار کرنے پر تلی ہیں خالصتاً فوجی کارکردگی پر قوم کی جانب سے دئےے گئے ”شکریہ راحیل شریف“ نعرے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے فوج کے ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش میں ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر بہت تیزی سے خراب ہوتے “سول ملٹری تعلقات” اب ایک نئے امتحان سے گزرنے جارہے ہیں۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق سیاسی حکومت کو جنرل راحیل شریف کا امریکہ کا دورہ پوری طرح ہضم نہیں ہو سکا۔ چیف آف آرمی اسٹاف گزشتہ کئی مہینوں سے مختلف ممالک کا دورے کررہے ہیں۔ جس کاآغاز اگرچہ افغانستان کے دورے سے ہوا تھا مگر نوازحکومت کے نزدیک اب یہ دورے صرف سلامتی یا دفاعی امور سے بڑھ کر تاثر دیتے ہیں۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک کے تعلقات ، انسداد دہشت گردی سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسی ملاقات کے بعد پریس بریفنگ کے دوران دونوں نے دنیا کے ساتھ مل کر داعش سے نمٹنے کا اعادہ کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنے 5 روزہ دورہ امریکا کے دوران امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرکے اپنے دورے کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا۔ سینیئر امریکی حکام کے مطابق جنرل راحیل شریف نے جو بائیڈن سے وائٹ ہاو


¿ کے ’روزویلٹ روم‘ میں ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات اور جنوبی ایشیا میں سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اگرچہ سینیئر امریکی حکام کی جانب سے اس ملاقات کی نوعیت کے حوالے سے زیادہ وضاحت نہیں کی گئی، تاہم آرمی چیف کی جو بائیڈن سے ملاقات کی اپنی ہی اہمیت ہے۔کئی ممالک کے فوجی سربراہان آئے روز امریکا کا دورہ کرتے رہتے ہیں، لیکن ہر کسی کی امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری خارجہ جان کیری سے ملاقات نہیں ہوتی۔ امریکا کا دورہ کرنے والے بیشتر ممالک کے فوجی سربراہان اپنے ہم منصب، سیکریٹری دفاع سے ملاقات کے بعد ہی اپنے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں، لیکن کسی فوجی سربراہ کی اعلیٰ امریکی سیاسی قیادت سے ملاقات بہت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دو ہفتے بعد ہونے والے اس دورے کی کی ٹائمنگ کچھ اس طرح بنیں کہ اکتوبر میں آئی ایس آئی چیف نے پہلے واشنگٹن کا دورہ کیا،پھر وزیر اعظم نواز شریف وہاں پہنچے اور اب جنرل راحیل شریف خود وہاں موجودتھے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عسکری و سیاسی قیادت کے دورے کے اس تسلسل کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں دلچسپی سے دیکھا گیا، موقر جریدوں وال اسٹریٹ جرنل اور نیوزویک نے جنرل راحیل شریف کی آمد کے حوالے سے لکھا کہ امریکی اب ’ اصل ‘ شریف سے بات کررہے ہیں اور فوج کے سامنے خارجہ اور دفاعی پالیسی بنانے کے تمام تر اختیارات ’سرنڈر‘ کرنے والے وزیر اعظم سے بات چیت محض ایک نمائشی اقدام تھا۔یقیناآرمی چیف کا یہ دورہ امریکہ کے نزدیک کوئی معمول کا دورہ نہیں تھا بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے ایک ایسے جنرل کا دورہ تھا جو نہ صرف اپنے ملک میں دہشتگردی کے خلاف موثر اور بھرپور جنگ لڑ رہا ہے بلکہ افغانستان میں طالبا ن کی عود آتی قوت اور عسکری جارحیت کو سیاسی طور پر ختم کرنے کا خواہاں بھی ہے۔لیکن تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ راحیل شریف اپنے اس دورے میں امریکی حکام سے شیو سینا اور مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف ایک بیان دلوانے سے قاصر رہے ہیں۔ اسی طرح مجوزہ پاک امریکہ سول جوہری معاہدے کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں ہوئی ۔ لہذا جنرل راحیل شریف کا یہ دورہ اس لحاظ سے نواز شریف کے دورہ امریکہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.