Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

جنرل (ر) پرویز مشرف

تحریر و تحقیق ۔ وقاص احمد خان

11اگست1943کو دہلی میں پیدا ہونے والے پرویز مشرف جو اب جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں پاکستان کے دسویں صدر تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت کی سبکدوشی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے منگلا کور کے کمانڈر پرویز مشرف کو دو جرنیلوں لیفٹنٹ جنرل علی قلی خان اور خالد نواز خان پر سپر سیڈ کرتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔

جنرل پرویز مشرف نے 1965 اور 1971 دونوں جنگوں میں شرکت کی تھی۔ جس وقت جنرل پریز مشرف پاکستان کی بری فوج کے سربراہ بنے اس وقت وہ ایک گمنام سے کور کمانڈر تھے مگر جلد ہی وہ اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں ہونے لگے۔ 1999 میں جب بھارتی وزیر اعظم واجپائی لاہور آئے تو جنرل پرویز مشرف نے انہیں سلامی دینے سے انکار کردیا۔ مئی 1999 میں ان کی قیادت میں پاک فوج نے کارگل کی چوٹیوں پر مہم آزمائی کی اور سیاچن گلیشئیر پر متعین بھرتی افواج کی رسد کا راستہ منقطع کردیا۔ امریکا نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیا اور اس کے دباو

¿ پر پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرنی پڑیں۔ یہیں سے نواز شریف اور پرویز مشرف میں بد اعتمادی کا بیج پروان چڑھنے لگا۔

جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ تیار کیا مگر اس سے قبل نواز شریف نے ان کو برطرف کرکے جنرل ضیا الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کردیا۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف غیر ملکی دورے سے وطن واپس آرہے تھے، ان کے نائیبین نے فوری کارروائی کرکے پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں اترنے کو یقینی بنایا اور اسی دوران نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد اگلے آٹھ برس تک جنرل پرویز مشرف ملک کے حکمران رہے۔ اور28 نومبر2007 تک بری افواج کے سربراہ کے منصب پر بھی فائز بھی رہے۔ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرپل ون بریگیڈ کے فوجی یونٹس کو 12 اکتوبر سے قبل ہی آپریشن کیلئے تیار رہنے کی ہدایات جاری کر دی گئی تھیں۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے جو لوگ اس منصوبہ کی تیاری میں مصروف تھے ان میں اس وقت کے سی جی ایس لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل احسان الحق (جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بنے)، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی (جنہیں بعد میں شولڈر پروموشن دیکر میجر جنرل بنایا گیا)، اس وقت کے پرسنل سٹاف افسر برائے آرمی چیف بریگیڈیئر ندیم تاج (جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بنائے گئے) اور اس وقت کے میجر جنرل شاہد عزیز (مصنف) شامل تھے۔ سری لنکا جانے سے قبل جنرل پرویز مشرف نے درج ذیل زبانی ہدایات لیفٹیننٹ جنرل محمود، لیفٹیننٹ جنرل عزیز اور شاہد عزیز (مصنف) کو جاری کیں ”آپ میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے احکامات جاری کرے۔“

اسی قانون شکنی پر جب 2009میں پرویز مشرف کے خلاف پاکستانی آئین کی پامالی اور سنگین غدداری کا مقدمہ دائر کرنے کی استدعا کی گئی تو اس وقت پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ءکو اعلیٰ ججوں کو برطرف کرنے اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق مقدمے کے مدعی حامد خان کی درخواست رد کردی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری نہیں کر سکتی، کیونکہ اس معاملے کو جانچنے کا حق صرف منتخب پارلیمان کو حاصل ہے کہ تین نومبر 2007ءکے بعد آئین سے متصادم کون کون سے آرڈیننس جاری کئے گئے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سپریم ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی البتہ آئین کی تشریح کا اختیار ضرور رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے اس امر پر بھی زور دیا کہ عدالت اداروں کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنانے پر یقین رکھتی ہے۔

دسمبر 2007میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس کا الزام پرویز مشرف پر لگایا گیا جس کا ثبوت حاصل کرنے کے لیے پانچ فروری2008 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط لکھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کےلیے اقوام متحدہ کا تین رکنی آزادانہ کمشن قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کیطرف سے پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کیلیے قائم کردہ کمیشن کا دائرہ اختیار بینظیر بھٹو کے قتل کے مجرموں کا سراغ لگانے کا نہیں بلکہ قتل کے حقائق معلوم کرنے تک محدود ہوگا۔کمیشن نے پاکستان کا کئی بار دورہ کیا ۔ مشرف سمیت دیگر سیاسی راہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں لیکن کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں جنرل پرویز مشرف کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا براہ راست مجرم نہیں ٹھہرایا۔ البتہ کمیشن کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیقات کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے اور انہیں تمام ثبوتوں تک رسائی نہیں دی گئی۔ اپریل 2010ءمیں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں مشرف حکومت پربے نظیر بھٹو کو مناسب تحفظ مہیا نہ کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا.کمیشن نے کہا تھا کہ بعض انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دوسرے حکام نے تحقیقاتی عمل بے سمت کرنے اور سچ کو منظرعام پرآنے سے روکنے کے لیے مداخلت کی تھی۔اس رپورٹ کے منظرعام پرآنے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے ذمے دار قراردیے گئے پولیس افسروں اور انٹیلی جنس حکام کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ یہ کیس ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

جنرل مشرف جو کبھی پاکستان کے طاقتور ترین فوجی اور سیاسی حکمران ہوا کرتے تھے کے لیے اس رپورٹ کا آنا کافی ثابت نہ ہوا اور ان پر پے درپے مقدمے قائم کیے جاتے رہے۔ان پر علیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر ب

±گٹی کے قتل ، لال مسجد آپریشن اور 3نومبر2007کو ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی اور آئین معطل کرنے پرسنگین غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔مشرف تب سے ان مقدمات سے اپنے وکلاءکے ذریعے اور بذات خود نمٹنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہر بار جب انہیں دکھائی دیتا ہے کہ ان مقدمات سے چھٹکارا ملنے ہی والا ہے تو ایک نیا قدم اور ایک نیا عدالتی فیصلہ ان کے تمام سیاسی ارمانوں کو چکنا چور کر دیتا ہے۔

آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ یہ جنرل صاحب بہت سے لوگوں کو بہت اچھے لگے تھے۔ ان کا بولنے کا انداز بڑا پسند کیا گیا، ان کے ‘لبرل’ خیالات اور رویہ کو بھی شہری لوگوں نے بہت سراہا۔ یہاں تک کہ جب وہ بھارت گئے تو انہوں نے اپنی اس شخصیت کے سحر میں بھارتی میڈیا کو بھی یوں گرفتار کر لیا کہ کل تک انہیں ‘ب

±چر آف کارگل’ کہنے والے لوگ ان کی باتوں اور کپڑوں کی تعریفیں کرنے لگ گئے۔پھر شروع ہو گئے سارے سیاسی کھیل۔ ہر فوجی ڈکٹیٹر کی طرح جنرل صاحب بھی اپنے لیے ‘جمہوریت کے کپڑے’ سلوانے میں مصروف ہو گئے۔ کنگز پارٹی بنا لی۔ چودھریوں کو ساتھ کر لیا۔ایم کیو ایم کو حوصلہ دلایا۔ لیکن ان کے دور اقتدار میں ہی فرقہ وارنہ نفرت پر مبنی جماعت سپاہ صحابہ کے رہنما اعظم طارق کو انتخابات کے لیے اہل قرار دیا گیا اور وہ رکن اسمبلی بھی منتخب ہو گئے۔ جنرل صاحب کے ہی مخصوص انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد کو ‘کتاب’ کا انتخابی نشان استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان ہی کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے طیارے کو اسلام آباد سے واپس کر دیا گیا۔ ان ہی کے دور حکومت میں چیف جسٹس اور عدلیہ کو فارغ کر دیا گیا، ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی اور ایک اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا۔لیکن دوسری جانب پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روشن حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی دور میں ملکی معشیت مضبوط ہوئی ہے ملک ترقی کی طرف گامزن ہوا اور عوام کو باقائدہ ریلیف ملا تو وہ دو ر سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ یہ دور پاکستان کی تاریخ میں معاشی خوشحالی اور ملک میں تیز رفتار ترقی کے اعتبار سے سب سے بہترین دور ثابت ہوا اسی دور میں پاکستان کی معاشی گروتھ (GDP ) آٹھ اشاریہ تک جا پہنچی تھی۔نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ بینک کلبز کی ممبر شپ کے لئے ، عمرے کی سعادت کے لئے ، ڈرائنگ روم کے لئے نئے فرنیچر ، پردوں اور دیواری پینٹگوں کی خریداری کے لئے قرضے کی فراہمی کی تشہیر بڑے بڑے بل بورڈوں کے ذریعےکیا کرتے تھے۔ لیکن مشرف کے جانے کے بعد یہ راز کھلا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بننے پر امریکہ نے پاکستان پر ڈالروں کی بوچھاڑ کردی تھی جس کو ملک کی صنعتی ترقی کے لئے استعمال کرنے کے بجائے سٹے بازی، کنزیومر اکانومی اور اللوں تللوں پر خرچ کرنے کے کلچر کو فروغ دیا گیااور نتیجہ یہ نکلا کہ جب جنرل پرویز مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو پاکستان میں مہنگائی کی شرح 30فیصد سے بھی اوپر تھی اور جو آج تک Single digitمیں آنے کے لئے ترس رہی ہے۔ یہی نہیںبلکہ جنرل پرویز مشرف نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ ملک کے اندر ڈالروں کی بوچھاڑ سے کالا باغ ڈیم ہی بنالیا جائے، بھاشا ڈیم کی بات تو ہوتی رہی ،لیکن وہ بات بھی زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھی، ملک میں ٹیکسٹائل ملوں ، شوگر ملوںاور سیمنٹ فیکٹریوں کی تعداد میں کوئی قابل قدر اضافہ نہ ہوا، لیکن بینکوں نے دھڑا دھڑ برانچیں کھولیں اور فوڈ انڈسٹری اور ٹیلی کام انڈسٹری نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی، کیونکہ ان سب کا تعلق کنزیومر اکانومی سے تھا۔

ممکن تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی زندگی کچھ آسان ہو پاتی جیسا کہ زرداری حکومت اور ان میں ایک ڈیل کے تحت ان کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی اور وہ لندن میں سکون سے رہ رہے تھے کہ یکا یک ان کے دل میں ایک سیاسی پارٹی بنانے کا خیال آیا اور وہ لندن میں اس کے قیام کا اعلان کر کے پاکستان آ پہنچے۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ اب وہ جنرل پرویز مشرف نہیں بلکہ جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں جن کے کریڈٹ پر بہت سے واقعات کا مبلہ پڑا ہے جسے ہٹانے میں ان کی عمر خضر بھی بیت سکتی ہے۔ فیس بک پر لاکھوں فینز رکھنے والے سابق صدر نے اپنی مقبولیت کا غلط اندازہ لگایا اور ان کے آتے ہی ان پر قائم تمام مقدمات نہ صرف کھول دیے گئے بلکہ لال مسجد سمیت نئے مقدمات بھی قائم کیے گئے۔ ان میں اکبر بگٹی کیس کے علاوہ حکومت پاکستان کی درخواست پر قائم کردہ سنگین غدداری کیس بہت اہم ہے۔ اس کیس کے ٹرائل کے لیے موجودہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی۔ مشرف کو گھر میں نظر بند کیا گیا اور وہ عدالتوں کے چکر کاٹنے میں مصروف ہو گئے۔ ایف آئی اے نے مشرف پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیں اور سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی۔ لیکن سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر ان کو سزا دینی ہے تو اس سے پہلے ان کے ساتھیوں اور مشیروں کو بھی عدالت میں بطور ملزم طلب کیا جائے۔ مشرف نے اسی دوران اپنے پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے۔ آئی ۔ ٹی ) قائم کرنے کی بھی استدعا کی۔ کیس کی سماعت جاری تھی کہ اسی دوران ان کو عارضہ قلب لاحق ہوا اور کیس کچھ وقت کے لیے دب گیا۔ لیکن حال ہی میں دوبارہ سماعت کے دوران خصوصی عدالت نے مشرف سنگین غداری کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو کیس کی دوبارہ تفتیش کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ خصوصی عدالت کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے پرویز مشرف کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی کو کیس کی تفتیش کا اختیار دینے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا، ایف آئی اے کیس کی ازسرنو تحقیقات کرے اور پرویز مشرف، شوکت عزیز، جسٹس (ر) عبدالحمید اور زاہد حامد کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کئے جائیں۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف نے تین نومبر کے اقدام کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی استدعا کی تھی جسے خصوصی عدالت نے مسترد کر دیا ہے اور کیس کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کر دی ہے – گویا اب تک خصوصی عدالت کی تمام تر کارروائی اسکریپ تصور کی جائے گی۔ اس کیس میں نیا ٹویسٹ یہ ہے کہ اس فیصلے سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف جاری سنگین غدداری کیس کے فیصلے میں کئی برس مزید بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ جو پنڈورا باکس پہلے بند کر دیا گیا تھا اس فیصلے سے ایک بار پھر کھل گیا ہے۔ تفتیش نئے سرے سے ہونے میں جو عرصہ لگے گا وہ تمام گواہوں کی موجودگی اور ان کا بیان لینے میںحائل رکاوٹوں پر منحصر ہو گا۔ دوسری جانب انکوائری رپورٹ کی تیاری اور اسے عدالت پیش کیے جانے کے بعدملزمان پر فرد جرم عائدہو گی اور اس کے بعد ہی خصوصی عدالت باضابطہ طور پر اس کے ٹرائل کا آغاز کرسکے گی،اس کا مطلب ہے کہ پراسیکیوشن کو ایک بار پھر اپنے تمام گواہ ایک بار پھر عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔لہٰذا اس حوالے سے ابھی کوئی بھی پیشگوئی نہیں کرسکتا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت کتنے عرصے میں مکمل ہوجائے گی۔اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پرویز مشرف کے وکلائے صفائی کی ٹیم کے سربراہ بیروسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اس پیشرفت کے بعد بھی اگر حکومت ٹرائل کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے تو اسے مکمل ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔اس مقدمے کی کارروائی کسی بھی شریک ملزم کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور پراسیکوشن کے لیے ان سب کی موجودگی کوہر سماعت کے موقع پر یقینی بنانا مشکل ثابت ہوگا۔ ملزمان بھی یہ درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں تنہا نہیں تھے بلکہ دیگر سیاستدان بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک تھے جبکہ اس طرح کے مقدمے میں یہ شریک ملزمان اپنے سابق ساتھیوں کے ساتھ مشترکہ ٹرائل کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عقلمند ہوئی تو میرے موکل کے خلاف الزامات سے دستبردار ہوجائے گی۔پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ محمد اکرم شیخ اس فیصلے پر کافی الجھن کا شکار نظر آئے اور ڈان سے بات کرتے ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ عدالتی فیصلہ مجموعی طور پر پراسیکیوشن کے حق میں نہیں”قانون کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ اب ٹرائل کا مرحلہ مکمل ہونے میں تاخیر ہوگی”۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ‘اعانت جرم’ کے مرتکب قرار دیئے جانے والے افراد اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرکے حکم امتناعی حاصل کرلیں۔گزشتہ برس جون میں نواز لیگ کی حکومت نے چار ایف آئی افسران خالد قریشی، حسین اصغر، مقصودالحسن اور محمد اعظم پر مشتمل ایک ٹیم الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی تھی ، اب یہ چاروں مختلف پوزیشنز پر کام کررہے ہیں۔ اگرحکومت اس معاملے میں تاخیر کی خواہشمند ہوئی تو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے نئی ٹیم کو تشکیل دے سکتی ہے۔جس سے ٹرائل مزید پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوبارہ تحقیقات کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ سست ہو گی کیونکہ نئی ٹیم کو تمام معاملات کو نئے سرے سے سمجھنے میں کافی وقت لگے گا۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت مشرف کا ٹرائل کرتے کرتے نہ جائے ماندن ۔نہ پائے رفتن کے مصداق ایک دو دھاری الجھن کا شکار ہو گئی ہے۔ جہاں اس کیس کا ٹرائل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے تعلقات کو کشیدہ کر دیتا ہے وہیں خاموشی اس کی جمہوریت پسندی پر ایک طعنہ بن کر برس اٹھتی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ شائد موجودہ پیش رفت فوج اور فوجی قیادت کی بڑھتی ہوئی عوامی پزیرائی کو قابو میں لانے اور سیاسی طور پر مزید آزادی اور طاقت حاصل کرنے کی حکومتی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.