Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

زمین کے ریکارڈ کی ڈیجی ٹائزیشن میں مزاحمت : پرت پٹواری سے پرت سرکار تک

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاںزمین کے غلط ریکارڈ کی وجہ سے زمین کے لاکھوں جھگڑے عدالتوں میں اٹکے رہتے ہیں ۔ عدالتیں، وکلا اور مقدمہ باز الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ دستاویزات میں ہونے والی دھوکا بازی اور ایک ہی زمین کا ٹکڑا دو دو لوگوں کے نام ہونا ہے۔ یہ باتیں مالک اور دھوکا دینے والے دونوں کو برابر مدد دیتی ہیں اور وہ دہائیوں تک مقدمہ لڑتے رہتے ہیں۔ ریونیو کورٹس جو ڈبلیو۔پی لینڈ ایکٹ 1967کے تحت کام کرتی ہیں، ان عدالتوں کی لاپروائی سے زمین کے جھگڑوں کا سارا بوجھ ٹرائل اور اپیلیٹ کورٹ (تحصیل و ضلع کی عدالت، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ) پر پڑتا ہے ۔ یہ عدالتیں پہلے ہی مقدموں کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ ریونیو کورٹس کی درجہ بندی یوں کی جا سکتی ہے: بورڈ آف ریونیو، کمشنر، کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹردرجہ¿ اوّل اور درجہ¿ دوم۔ صوبائی حکومت ان پر انتظامی کنٹرول رکھتی ہے اور ایسے نااہل افسران تعینات کرتی ہے۔
ڈبلیو۔پی لینڈ ریونیو ایکٹ1967ان افسران کے اختیارات اور وظائف (کام) بیان کرتا ہے۔ لیکن وفاقی عدالتی اکادمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فقیر حسین کے مطابق یہ تمام عدالتیں جھگڑوں کا تصفیہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں اِن لینڈ ریونیو کی چار اپیلیٹ ٹیبونل ہیں۔ 2013ءسے انیس ہزار سے زائد مقدمات ،جو اِن عدالتوں کی طرف بھیجے گئے تھے، زیرِ التوا پڑے ہوئے ہیں۔
ہماری زمین کے ریکارڈ کی مینجمنٹ کو مغربی پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967اور رجسٹریشن ایکٹ 1908کے تحت دیکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے ریاست کے لیے ضروری نہیں کہ وہ زمین کے مالک کو زمین کے ٹائٹل کا سرٹیفیکیٹ دے۔ چناں چہ زمین کے ریکارڈ غلطیوں سے بھرے پڑے ہیںاور ملکیت کے دعوے کا واحد راستہ عدالتیں ہیں۔ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں نے بار بار فیصلے کیے ہیں کہ لینڈ ریونیو ریکارڈ قابلِ مقابلہ ہیں اور یہ کہ یہ حتمی نہیں ہیں، لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انصاف کے مروجہ نظام میں ایسا کرنے کے لیے زندگی، سرمایہ اور سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں حکومت ٹائٹل آف دی لینڈ کو رجسٹر کرنے کی ذمہ داری نہیں لیتی۔پاکستان میں تمام جھگڑے زمین کے ریکارڈ میں کیے گئے اندراجات پر منحصر ہیں اور یہ خالصتاً پٹواری کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اسے حسبِ منشا تروڑ مروڑ سکتا ہے۔
زمین کی ملکیت کی ریاستی تصدیق کی عدم موجودگی میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہر شخص مجبور ہے کہ وہ خود مدعی مشہور ”چیف جسٹس آف لینڈ ریکارڈ“ یعنی پاکستان میں پٹواری کو رشوت دے اور سلام کرے۔ گریڈ 9 کا ملازم پٹواری کسی بھی شخص بشمول ججوں سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ جج کچھ بھی نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ مذکورہ ”افسر“ کی فراہم کردہ معلومات پر سر ہلا سکیں۔ کسی بھی جھگڑے کی صورت میں، گرداورقانون گو کے کمانے والے ہاتھ (گریڈ 11کا افسر)، نائب تحصیل دار (گریڈ14 کا افسر)اور تحصیل دار (گریڈ16کا افسر)مکمل طور پر سکونِ قلب و ذہن پاتے ہیں۔ ان اعلیٰ افسروں کی وجہ سے عدالتیں، وکلا اور مقدمے باز وں کو کوئی جائے فرار نہیں ملتی۔ایف۔آئی۔اے۔ایس کی 2005میں کی گئی تحقیق کے مطابق ہماری عدالتوں میں دائر تمام مقدمات کا چالیس فی صدزمین کے جھگڑوں پر مشتمل ہیں۔تھیوری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پٹواری ریاست کا ایک نچلے درجے کا ملازم ہے، لیکن عملاً ریاست کے بہت سے نازک معاملات میں نچلی سطح پر اُسے اجارہ داری حاصل ہے۔۔ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کے علاوہ اُسے اور بھی بہت سی سرکاری اور نیم سرکاری فرائض ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ فرائض رائے دہندگان کی فہرستوں کی درستی تک ہی محدود نہیں ، اُسے سیاسی ریلیوں کی تیاری کرنی پڑتی ہے، آبی وسائل کی لائننگ کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے ، علاقے میں بہت اہم شخصیات کے دورے میں سہولت دینی پڑتی ہے اور قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی صورت حال سے عہدہ برا ہونا پڑتا ہے۔
اس سے نمٹنے کے لیے شہباز شریف کی صوبائی حکومت نے 2012ءمیں پنجاب میں زمین کے ریکارڈ کو ڈیجی ٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پبجاب حکومت کا شان دار کارنامہ ہے جس کے ذریعے سے صوبے میں قبضہ مافیا، مقدمے بازی اور زمین کے تنازعات حل ہو جائیں گے اور کوئی ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے کسی دُوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یہ نظام محکمہ مال کی نچلی سطح پر بد عنوانی کو جڑ سے اُکھاڑ دے گا اور لوگ صدیوں پرانے ظالمانہ نظام سے نجات پائیں گے۔ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کے تحت قائم کردہ کمپیوٹرائزڈ سروس سینٹرز کے ذریعے سے زمین کا مالک اپنی جائیداد کے بارے میںکسی بھی طرح کے ابہام سے بچ جائے گا ۔
پنجاب کی ہر تحصیل اور ضلع میں اپنے سروس سینٹرز کے ذریعے یہ نظام چل رہا ہے۔ لیکن نامکمل اور غلطیوں سے بھرپور زمین کے ریکارڈ کی وجہ سے یہ ایک مشکل کام ہے ۔ خود کو ”زمین کے ریکارڈ کا چیف جسٹس“ کہلانے والے یعنی ہمارے پسندیدہ پٹواری کی مزاحمت کی وجہ سے بھی یہ تکلیف دہ ہے۔ روایتی طور پر زمین کا ریکارڈ پٹوار دفتر میں دو صفحوں (پرت)پر رکھا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک ”پرت پٹوار“ ہوتا ہے، یہ پٹواری کا ذاتی ریکارڈ ہوتا ہے جب کہ دُوسرا ”پرت سرکار“ ہوتا ہے ، یہ زمین کے ریکارڈ کا بیان ہوتا ہے، اسے پٹواری حکومت کے لیے رکھتا ہے۔
پٹواری ایک نچلے عہدے کا افسر ہوتا ہے بلکہ محض ایک ریکارد کیپر ہوتا ہے لیکن وہ عام طور پر ناجائز ذرائع سے ٹھیک ٹھاک رقم کما لیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود اخراجات برداشت کر کے اپنا معاون بھی رکھ سکتا ہے۔ اس معاون کو یہ فرض سونپا جاتا ہے کہ وہ اپنے باس ”پٹواری“ کے لیے محکمہ مال کے رجسٹر تیار کرے۔ ریکارڈ کی ڈیجی ٹائزیشن ”پرت سرکار“ سے کی گئی۔ جب اس کام کا آغاز ہوا تو پٹواری کو معلوم تھا کہ اگر یہ کام کامیابی سے ہو گیا تو اس سے اُس کی صدیوں پرانی اجارہ داری اور اُس کی غیر قانونی کمائی ختم ہو جائے گی۔ چناں چہ جب حکومت نے اُنھیںچھ ماہ کے اندر اندر ڈیٹا انٹری دفاتر میں ”پرت سرکار“ جمع کرانے کو کہا تو اُنھوں نے اپنے معاونین کی مدد سے نئے ”پرت سرکار“ تیار کر لیے ۔ اُنھوں نے اپنے معاونین کو ہدایت کی کہ وہ یہ پرت ایسی لکھائی میں تیار کریں کہ جس کو کوئی دُوسرا پڑھ نہ سکے۔ مزید یہ کہ معاونین سے کہا گیا کہ ان دستاویزات میں وہ تمام ممکنہ غلطیاں رکھی جائیں تاکہ ڈیٹا انٹری کاسارا عمل غلط ہو اور پٹواری کی ضرورت کبھی ختم نہ ہو۔
مغربی پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967میں 2011ءاور 2012ءمیں مختلف بامعنی مقاصد کی خاطر ترمیم کی گئی ۔ 2011ءمیں سیکشن 5,6,7,8,9,10 اور 11کے متبادل سیکشن تشکیل دیے گئے۔ اگرچہ یہ ایک طویل عرصہ چلتے رہے تھے لیکن صرف ان سیکشنوں کے تبدیل کرنے کے بعد صوبہ ڈویژنوں، اضلاع، سب ڈویژنوں، محکمہ مال کے افسران کی نئی درجہ بندی، کمشنروں اور کلکٹروں کی تعیناتی ، اسسٹنٹ کمشنر (مال) اور اسسٹنٹ کلکٹر میں تقسم ہو گیا اور تحصیل دار کی قانونی طور پر نئی تعریف کی گئی۔ اسی سال سیکشن 13, 14, 16, 60, 63, 69, 84, 89, 92, 101, 102, 103, 104, 107, 108, 123 161, 162, 163 اور64میں ترمیم کی گئی۔ 2012ءمیں سیکشن 135-A اور 142-A شامل کیا گیا۔ سیکشن 136,137,140, 14میں ترمیم کی گئی اور 1967کے ایکٹ سترہ میں سے سیکشن 139کو حذف کیا گیا لیکن اسی ایکٹ کے سیکشن 3 سے متعلقہ میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی جوقصبے یا گاﺅں کی جگہ کو لینڈ ریکارڈ کے پیش منظر میں شامل نہیں کرتا۔
ہم میں سے بہت کم کو علم ہے کہ زمین کے ریکارڈ کا دستور العمل کا پیرا 7.57-Aیہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ علاقے جو شہری آبادی میں شامل ہو گئے م وہ ضلعی کلکٹر کے پیش منظر سے نکل جائین گے ، اسی طرح وہ پٹواری کے پیش منظر سے بھی نکل جائیں گے کہ پٹواری کا کام زرعی زمین تک محدود ہے۔ تاہم آزادی کے بعد سے اب تک محکمہ مال غیر قانونی طور پر شہری زمینوں کا ریکارڈ رکھنے کا کام چلائے جا رہا ہے۔ شہری زمین جہاں عمارات بن چکی ہیں اور کوئی زرعی سر گرمی نہیں ہوتی،پٹواری کے پاس اس کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔ 8جولائی 1968ءکے میمورنڈم نمبر 3417-68/1203-(S)کے بعد اس سیکشن کا نفاذ مکمل طور پر رک گیا اور اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ یہ میمورنڈم تمام کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو شہری علاقے ضلعی کلکٹروں کے ریکارڈ سے نکالنے کی ہدایت کرتا تھا۔
جب حکومت نے یہ نظام شروع کیا تو جس قدر اسے شروع کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑی ، اُس تناسب سے لوگوں کو سہولت نہیں ملی۔ سروس سینٹر جانے والا ہر دُوسرا شخص غلط کمپیوٹر کی شکایت کرتا ہے ، جو پٹواری کے رجسٹر میں بالکل ٹھیک ہوتا ہے۔ ”پرت پٹوار“ جو پٹواری کا ذاتی ریکارڈ ہے، وہ اُسے خوب صورت لکھائی سے بغیر کسی غلطی کے بنا سنوار کے رکھتا ہے۔ جب کوئی آدمیمطلوبہ دستاویزات لینے کی غرض سے اپنے علاقے کے زمین کے ریکارڈ سروسینٹر میں جاتا ہے تو اُسے ڈیٹا میں بہت زیادہ غلطیاں ملتی ہیں۔ واحد شخص جو ”فرد بدر (دستاویز برائے اصلاح) جاری کر سکتا ہے، وہ پٹواری ہے۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر ریکارڈ کی درستی کے لیے سروس سینٹر والے زمین کے مالک سے پٹواری سے مشورہ کرنے کو کہتے ہیں اور اُس سے ”فرد بدر“ جاری کروا کر لانے کو کہتے ہیں ، تاکہ کمپیوٹر میں ریکارڈ درست کیا جا سکے اور جائز نقل جاری کی جا سکے۔ ڈیجی ٹائزیشن سے پہلے ایک عام آدمی کے لیے زندگی بہت ”آسان“ تھی جب وہ پہلے سے طے شدہ رشوت پٹواری کو دیتا تو مطلوبہ دستاویز اسے دے دی جاتی تھی۔ لیکن اب بنک میںمجوزہ فیس جمع کرانے کے لیے اور سروس سینٹر میں نقل کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں لگے رہنے کی زحمت گوارا کرنے کے بعدملنے والا ریکارڈ غلط ثابت ہوتا ہے۔ اس کام میں مزید دن اور مزید رقم خرچ ہوتی ہے۔اضافی تھکاوٹ کے بعد پٹواری سے ”فرد بدر“ کے حصول کے لیے اُسے مطمئن کرنا پڑتا ہے۔ اگرڈیجی ٹل ریکارڈ میں زمین کے مالک کا شناختی نمبر غلط ہو ، ت مالک کو اسسٹنٹ دائریکٹر لینڈ ریکارڈ کے پاس جانا پڑتا ہے، جو ایک ”صحت نامہ“ (ڈیجی ٹل ریکارڈ کی درستی کے لیے ایک

سروس سینٹر چھوٹے ہیں اور عوام زیادہ ہیں، اپریٹرز چند ایک ہیں جب کہ قطاریں طویل ہیں۔ اس کے علاوہ اور پریشانیاں بھی ہیں مثلاً کمپیوٹرائزڈ سسٹم مالک کی بائیو میٹرک تصدیق کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے تاکہ اصل درخواست دہندہ کی تصدیق کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن اگرڈیٹا بیس میںزمین کے ریکارڈ میں غلط اندراجات کے باعث تصدیق نہ ہو سکے تو سروس سینٹر کے پاس دُوسری کوئی سہولت موجود نہیں۔ امیدوار کو نادرا کے ای سہولت سینٹر میں بھیجا جاتا ہے جہاں وہ اپنے شناختی کارڈ کی ایک تصدیق شدہ کاپی حاصل کرتاکرتی ہے اور اسی صورت میں لینڈ ریکارڈ کے سہولتی مرکز میں سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔اس سے پہلے ہی سے پریشان سائلین کی پریشانی میں اضافہ کر دیتا ہے جن کا خیال ہے کہ اس جدّت سے اُنھیں کوئی سکھ تو نہیں ملا، البتہ اُن کی پریشانی اور خرچ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ موجودہ نظام اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ ”پٹوار کلچر“ کی اجارہ داری توڑ کر عوام الناس کو سہولت دی جائے لیکن صوبائی حکومت کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ڈیجی تائزیشن اپنے مقاصد پورے کر رہی ہے، زمین کے ریکارڈ کی پر اسراریت ، مشکل زبان اور بوجھل پراسیسنگ کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے ۔ حکومت کو”پرت پٹوار“ اپنی تحویل میں لے لینے چایہیں اور ڈیٹا انٹری اپریٹرز کو یہ فرض سونپا جائے کہ کمپیوٹر میں درج کیے گئے ڈیٹا کا ذاتی ریکارڈ سے موازنہ کریں۔ فیس جمع کرنے کی غرض سے سروس سینٹرز پر پنجاب بنک کی کھڑکی کھولنے کا پنجاب حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ لیکن جب تک ڈیٹا بیس کو غلطیوں سے پاک نہیں کیا جاتا، لوگوں کو صوبے میں زمین کے ریکارڈ کی ڈیجی ٹائزیشن سے حقیقی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ لوگ ”پرت پٹوار“، ”پرت سرکار“ ، ”فرد بدر“ اور ”صحت نامہ“ کو نہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ دستاویز)جاری کرے گا۔

1 thought on “زمین کے ریکارڈ کی ڈیجی ٹائزیشن میں مزاحمت : پرت پٹواری سے پرت سرکار تک”

  1. Petwarys are suported by dcs and anti corruption authorities in fsd pertticularly regserys should registers by civl courts if pm suspends revenew officer it may be anti corruption in country اے سی اور پوری انتظامیہ عوامکی دال کرپٹ پٹواریوکےخلاف انتظ گلنےگلنےنھیںدیتی اسی وجہسےلوگن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.