Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

طالبان، فرقہ پرستی اور چھوٹو: اپریشن ضربِ عضب کی ایک مجوزہ درجہ بندی

عصری دہشت گردی حیران کن رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میںدہشت گرد تنظیمیں اپنی بھرتی، حملے اور پروپیگنڈا کی حکمتِ عملی تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ وہ جدت پسند ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے رہتے ہیں۔اُن میں پھر سے پیدا ہونے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ پنجاب میں راجن پور میں دریائے سندھ کے جزیروں پر، سندھ اور بلوچستان کی سرحد کے ساتھ کچا کے علاقے میں مجرموں کے ایک پر تشدد گینگ بے قابو ہو گیا۔ چھوٹو گینگ کا قلع قمع کرنے کے لیے ٹینک، ڈرون اور لڑاکا جیٹ بھیجے گئے۔ ان ڈاکوﺅں نے درجنوں پولیس والوں کو مار ڈالا اور درجنوں کو یرغمال بنا لیا۔ انھوں نے یرغمال بنائے گئے پولیس والوں کو محفوظ راستہ پانے کے لیے سودے بازی کے لیے استعمال کیا۔ یہ کہانی ہفتوں چلتی رہی ۔ دراصل یہ کہانی 2002ءمیں اس وقت شروع ہوئی جب مٹھی بھر چوروں نے روایتی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے بلا مقصد لوٹ مار کی۔
چھوٹو گینگ نے سیکڑوں ارکان کے اضافے کے ساتھ ساتھ2016ءمیں اپنے اسلحہ خانے میں بارودی سرنگیں، جہاز مار گرانے والی بندوقیں، بم اور دوسرے جنگی ہتھیار جمع کر لیے۔ اس گینگ نے پولیس اور رینجرز کی طرف سے کیا جانے والا اپریشن دو ہفتے روکے رکھا۔ اپریشن ختم کرنے میں فوج کو اٹھارہ ہفتے لگے،پھر کہیں جا کر ان مسلح بدمعاشوں کی تحویل سے یرغمالیوں کو رہا کرایا گیا اور ا ن کا صفایا کیا گیا۔
کیا یہ ایک دھمکی نہیں تھی؟
گینگ کے ارکان کو آئی۔ایس۔پی۔آر کے اعلان سے اپریشن شروع کیے جانے کا علم ہو گیا تھا ۔ بہت زیادہ دباﺅ اور عنقریب ممکنہ بارود ی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے گینگ کے ارکان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ اُنھیں بالا دستی حاصل ہے کیوں کہ انھیں جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی کوششیں اٹکل پچو، بے ترتیب اور غیر منظم تھیں۔ آخری تاریخ کے اعلان کے بعد گھنٹے دنوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ یوں دکھائی دینے لگا جیسے گینگ نے فوج کو بھی دھوکا دے دیا ہو۔ تیرہ سال کی عمر میں غلام رسول عرف چھوٹو اٹھارہ قتلوں کے جرم میں مطلوب تھا۔ اُس کے گینگ نے2004ءمیں اٹھارہ چینی انجنئیروں کوبھی انڈس ہائی وے سے اغوا کیا تھا اور اُنھیں تاوان کے لیے قبضے میں رکھا تھا۔ لیکن اس بات کو بہت سے لوگوں نے رپورٹ کیا کہ اس علاقے کے ایک سیاسی وڈیرے نے جنوبی پنجاب کے رہنے والوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اس گینگ کو استعمال کیا۔
کیا یہ ممکن تھا کہ اس گینگ کے خلاف 2010ئ، 2012ئ، 2013ءاور2015ءمیں کیے جانے والے اپریشن زبردست ناکامی کی صورت میں ختم ہوتے؟
بدھ کے روز جب حکام نے کچا جمال میں اُن کے قلعے کا محاصرہ کر لیا تو چھوٹو نے آخرِ کار اپنے تیرہ آدمیوں اور 147رِنگ ارکان کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔ اُنھوں نے چوبیس یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ بیس روزہ محاصرہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ دادو تحسین دی گئی لیکن یہ تکلیف دہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر بحث کی جائے، انھیں باریک بینی سے دیکھا جائے اور ا ن کا تجزیہ کیا جائے۔
اپریشن ضربِ آہن دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے سوچا گیا تھا لیکن یہ مخصوص گینگ کبھی کسی فرقہ وارانہ نوعیت کے حملوں میں کہیں ملوث نہیں رہا۔ بصیرت و فہم اور پس اندیشی اس بات کو آسان بنا دیتی ہے کہ ہم حکمتِ عملی کا اندازہ کریں۔ چناں چہ اس کم یاب کامیابی کے بعد اس گینگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ایسا ناپاک گروہ جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہو ، وہ اپنے خلاف کسی کامیاب اپریشن کے جاری رہنے کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کی تلاش میں جو جو حربے استعمال کیے گئے، انھوں نے پکے دہشت گردوں کو اپنے اپنے علاقوں سے بھاگ جانے اور ضربِ آہن سے بچ نکلنے کا وقت دے دیا۔خصوصاً جب سے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا سے تعاون کرنے کا عہد کیا ہے، پنجاب فرقہ پرستی والا تشدد کرنے والے عسکریت پسندوں کا پسندیدہ ٹارگٹ بن چکا ہے۔
30مارچ 2009ءکو عسکریت پسندوں نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے باہر پولیس ٹریننگ سینٹر پر خطرناک حملہ کیا۔ اس میں آٹھ پولیس کیڈٹوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس واقعے سے ایک ماہ کے عرصے سے بھی کم پہلے ایک گن مین نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ کیا۔اس میں بھی آٹھ لوگ مارے گئے۔
پاکستان کا سب سے زیادہ گنجان آباد صوبہ وسیع پیمانے پر خون خرابے سے بچ نکلا ہے، یہ بات ملک کے ش،ال مغربی حصے کو پریشان کر سکتی تھی۔ مقامی حملوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ زیادہ تر ”پنجابی طالبان“ کے نیٹ ورک سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس جبر کے بڑے گروہ لشکرِ جھنگوی، سپاہِ صحابہ پاکستان اور جیشِ محمد ہیں۔ یہ خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان میں ہیں۔ پنجاب میں مستقبل میں کیے جانے والے اپریشن طالبان کو نشانہ بنا کر کیے جائیں گے۔
معصوم شہریوں اور ملک کے مستقبل کے تحفظ کے لیے انتہا پسندی اور فرقہ ورانہ تشدد کو ہدف بنانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ ایسی مذموم سرگرمیوں میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے اور موزوں طریقے سے ان سے نمٹنے پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومتِ پنجاب اس قدر موثر طریقے سے تیزی سے کیے گئے حملے کو نہیں روک سکتی۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو ٹھوس معلومات اور تعاون درکار ہو گا۔ وہ پنجاب حکومت کی یہ تکرار اور ناگوار منتر سن سن کر تھک گئے ہیں کہ ”صوبے میں کوئی دہشت گرد نہیں ہیں اور یہاں کسی اپریشن کی ضرورت نہیں۔“
صرف پنجاب میں پچاس فی صد سے زائد لوگ اہلِ سنت یا بریلوی ہیں۔ وہ صوفیانہ اور رسمی ہیں، وہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بزرگانِ دین کے لیے بے حد عزت و احترام کا اظہار کرتے ہیں۔
دُوسرے نمبر پر دیوبندی ہیں۔ یہ اہلِ سنت کا ایک ذیلی فرقہ ہیں۔ وہ روایتی سنی فرقے کی صوفیانہ اور رسمی باتوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں امام ابو حنیفہ کے فقہ کے مقلد ہیں۔ تیسرا فرقہ اہل تشیع کا ہے جو امام جعفر سادق کے فقہ کی تقلید کرتے ہیں۔ چوتھا فرقہ اہلِ حدیث کا ہے ، یہ بھی اہلِ سنت کا ذیلی فرقہ ہے تاہم وہ کسی مخصوص فقہ کے مقلد نہیں ہیں اور دُوسرے انھیں غیر مقلد یا وہابی کہتے ہیں۔ اہلِ حدیث تعداد میںاہلِ تشیع سے تھوڑے سے کم ہیں۔
پنجاب میں فرقہ پرستی پر مبنی تشدد 1980ءمیں اپنے عروج پر رہا ہے۔ اُس وقت سنی مسلک کی اے۔ایس۔ایس کی اہلِ تشیع کی ایس۔ایم۔پی کے ساتھ مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ انقلابِ ایران، افغانستان میں سوویت یونین کی دراندازی اور پاکستان میں مارشل لا نے ایک نیا گٹھ جوڑ پیدا کیا ، اس میں مختلف مقامی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے مفادات آپس میں ٹکرائے۔ فوجی حکومت نے تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں کی مدد سے ایران کے خلاف ایک خاص فرقے کو فروغ دیا۔ تب سے ہماری داخلی سلامتی کے نمونے میں فرقہ پرستی کا مسئلہ نمایاں اہمیت حاصل کر گیا ہے۔ ان سب واقعات نے روزافزوں انتہا پسندی کے لیے راستے کھول دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھمبیوں کی طرح مدارس بھی کھلتے گئے۔
مدارس بورڈ ان مدرسوں کو باقاعدہ رکھتا ہے۔ یہ مدارس فرقہ پرستی کو فروغ دیتے ہیں۔ اگرچہ دیگرتمام فرقوں کی نسبت بریلوی مکتبِ فکر کے مدارس کی تعداد زیادہ ہے،لیکن جس قدر لوگ اس مسلک کے ماننے والے ہیں، اُس حساب سے اس کے مدارس زیادہ نہیں ہیں۔ دیوبندی وہ واحد فرقہ ہے جن کے مدارس آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہیں ۔
ان فرقوں میں سے بعض مدارس پر شک کیا جاتا ہے کہ ان کے عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں۔ اکثر مدارس دیوبندی فرقہ چلا رہا ہے، باقی تین فرقوں کے چندمدارس ہیں۔ ہر فرقہ کے اپنے اپنے خطیب ہیں جو شعلہ بیانی کے جوہر دکھاتے ہیں اور مخالف فرقوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اور فرقہ واریت کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ایسے خطبا کی کافی تعداد دیوبندی فرقے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے بعد بالترتیب اہلِ حدیث، بریلوی اور اہلِ تشیع ہیں۔
پاکستان میںانتہا پسندی یقیناً مذہبی عسکریت پسندی اور دہشت گردی تک محدود نہیں، یہ تمام سطحوں پر پائی جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ خصوصاً ہمارے نوجوان انتہا پسندی کے پروپیگنڈا کی زد میں جلدی آ جاتے ہیں۔دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا دشمن ماحول پیدا کیے بغیر بنیاد پرستی کے خاتمے کی کوششوں کے بارے میں غور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فوری ضرورت ہے کہ معاشرتی لچک پیدا کی جائے تاکہ وہ لوگ جو انتہا پسندی کے خلاف ہیں، اُنھیں محفوظ و مامون رکھا جا سکے۔
قانون نمافذ کرنے والے اداروں کو صوبے کو درپیش حقیقی خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مذہبی انتہا پسندی میں مداخلت کرنے، نگرانی کرنے اور قابو پانے میں ناکامی کے ورثے نے بریلوی مکتبِ فکر کو بھی متشدد بنا دیا ہے جیسا کہ اُنھوں نے دارالحکومت میں احتجاج کیا ہے۔ ایسی غفلت نعمت نہیں ہے۔ ہمارے راہ نما دو سال بعد دہشت گردوں پر کریک داﺅن کرنے کی نیت اور منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں لیکن حالات کبھی اُن کے لیے سازگار دکھائی نہیں دیتے۔
ستمبر گیارہ کے واقعے کے بعد سے پاکستان میں آٹھ وزرائے اعظم اور خفیہ ادارے کے سات سربراہ آئے ہیں۔ انتہا پسندی سے لڑنے کے بجائے علاقائی یا ملکی سیاست کی وجہ سے ان کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہماری حکومت کو انتہا پسند گروپوں کی طرف سے حقیقی اور بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنا چاہیے۔
اُنھیں صحیح طرح سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کامیاب منصوبے بنانے چاہییں، پہلے سے مقرہ اور طے شدہ ترجیحات کے ساتھ اپریشن کرنے چاہییں۔ اپریشن مہارت اور مناسب طاقت کے ساتھ کیے جائیں۔ ڈاکوﺅں کو ہدف بنانایقیناً ضروری ہے لیکن اسے طالبان اور فرقہ وارانہ تنظیموں کومن مرضی کرنے کی چھٹی دے کر نہیں کرنا چاہیے۔
ضربِ آہن انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی کے ارادے سے ہونا چاہیے۔ اس میں جدت پسندی، بچاﺅ اور حملے سے پہلے دفاع کرنے کی پالیسیاں ہونی چاہییں۔ ہمیں اُن لوگوں سے دو قدم آگے ہونا چاہیے جو ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بصورتِ دیگر پاکستان کے مقدر میں لڑکھڑانا، ایک سانحے سے دوسرا سانحہ دیکھنا ، ایک غلط سوچے ہوئے فوجی اپریشن سے دُوسرا اپریشن ، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
سانپ کو سو سال بھی دودھ پلایا جائے تو وہ پھر بھی a گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.