Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

قومی مشاہیر کی مشکل: کیا ہم کبھی اقلیتی مشاہیر کو کبھی پہچان پائیں گے؟

ہماری قوم کے ہر شعب

ہماری قوم کے ہر شعبہ¿ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مشاہیر کو فخر سے یاد کرتے ہیں. اور اُن کے دِن مناتے ہیں۔ جب ہم اپنے ملک کے نقشے کو دیکھتے ہیں. تو غالباًہم میں سے بہت سے پنجاب اسمبلی کے اولین اور واحد غیر مسلم سپیکر ایس۔پی۔سنگھا کی خدمات سے ناواقف ہوں گے۔عیسائیت سے تعلق رکھنے والے سنگھا منتخب سپیکر تھے. اور اُنھوں نے لاہور میں 3ڈیوس روڈ پر ہونے والی میٹنگ میں. پاکستان کے لیے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔جب دونوں طرف کے ووٹ برابر ہو گئے. اور سپیکر کے ووٹ نے فیصلہ کن کردار ادا کرنا تھا توموت کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے .اُنھوں نے پاکستا ن کے حق میں ووٹ دیا۔

ان کی خدمات

اور اطاعت کے باوجود سنگھا کو بتایا گیا. کہ صرف مسلمان ہی سپیکر کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ عدم اعتماد کا ووٹ دیا گیا اور اُسے اس اعلیٰ منصب سے الگ کر دیا گیا۔قوم کی پر خلوص خدمت کے صلے میں اُنھیں سزا دی گئی. اور اُنھیں اُن کے عقیدے کی وجہ سے ہلا کے رکھ دیا گیا۔ ونگ کمانڈر مروی این مڈل کوٹ پاکستان فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کے پائلٹ تھے۔ اُنھوں نے 1965 اور1971کی پاکستان اور ہندوستان کی جنگوں کے دوران میں کئی فضائی حملوں میں حصہ لیا ۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا ۔ اُس کی شادی کراچی کی ایک عیسائی لڑکی سے ہوئی ۔ اُس نے 1971ءکی جنگ میں پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ جب اُن کے ایف۔104سٹار فائٹر سے ہندوستان کے ایک لڑاکا طیارے سے فائر کیا گیا میزائل ٹکرایا .تو اُنھیں جہاز سے نکل کر بحیرہ¿ عرب میں گرتے ہوئے دیکھا گیا۔

جب 2009ء

جب 2009ءمیں ایک نقاب پوش خودکش بمبارنے وفاقی دارالحکومت میں .واقع بین الاقوامی اسلامک یونی ورسٹی کے طالبات کے کیفے ٹیریا میں داخل ہونے کی کوشش کی. تو چوکی دار پرویز مسیح نے اپنی جان دے کر طالبات کو بچا لیا۔ وہ حملہ آور کی طرف تیزی سے بھاگا ، اُسے گرفت میں لے لیا اور دھماکے کی نذر ہو گیا۔
گزشتہ مارچ میںبیس سالہ آکاش بشیرجو رضاکارانہ طور پر یوحنا آباد میں سینٹ جان چرچ میں سیکیورٹی پر مامور تھا، اُس نے بھانپ لیا کہ چرچ کی طرف بڑھنے والا خودکش بمبار ہے۔ اُس نے آنے والے آدمی کو روکا اور پوری قوت کے ساتھ اُسے گرفت میں لے لیا ، یہاں تک کہ بم پھٹ گیا۔ اُس کے اس عمل سے سیکڑوں انسانوں کی زندگیاں بچ گئیں۔
سنگھا کی طرح مسیح اور بشیر بھی عیسائی تھے۔

مئی 2015ءمیں

شمالی وزیرستان کی وادی ترہ میں پاکستان فوج کی طرف سے طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے نوجوان عیسائی سپاہی ہارون جاوید مسیح نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ . جنوری میں پندرہ سالہ انورعلی حجرہ شاہ مقیم کی ایک مسجد میں محفلِ میلاد کے بعد اپنا ہاتھ کاٹ لیا۔ اُس نے خود کو مستقل طور پر معذور کر لیا کیوں کہ “مولانا“ شبیر احمد نے اعلان کیا کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق نہیں کرتا، اپنا ہاتھ کھڑا کرے۔ انور نے غلط فہمی سے یہ جانا کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرتاہے، اپنا ہاتھ کھڑا کرے۔ چناں چہ اُس نے اپنا ہاتھ کھڑا کر دیا۔

لڑکے کے اس عمل کو توہینِ رسالت پر محمول کیا گیا

لڑکے کے اس عمل کو توہینِ رسالت پر محمول کیا گیا ۔ ”مولانا“ نے لڑکے کو توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دے کراُسے واجب القتل قرار دیا۔ میلاد کی محفل میں بیٹھے افراد نے اُسے برا بھلا کہا۔ اس پر انور علی اس قدر پریشان بلکہ مخبوط الحواس ہوا کہ اُس نے اپنا ہاتھ کاٹا اور اسے ایک پلیٹ میں رکھ کر عالمِ دین کو پیش کر دیا تاکہ اُسے اُس کے ©©”گناہ“ کی معافی مل جائے۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295۔سی کے مطابق توہینِ رسالت ”نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ مبارک میں توہین آمیز لفظ کا استعمال خواہ وہ تحریری صورت میں ہو یاتقریری صورت میں ، یا واضح نمائندگی یابراہِ راست یا بالواسطہ اشاروں کنایوں میں یا خفیہ طور پر شہ دینا ، نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نام کی بے حرمتی کرنا ہے۔ ایسے کرنے والے کو سزائے موت یاعمر قیدہو گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہو گا۔“
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ توہینِ رسالت کا تصور اور اس کی مجوزہ سزائیں قرآن مجید اور نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرزِ عمل سے متصادم ہیں۔ اس کے بجائے قرآن یہ تجویز کرتا ہے کہ توہین کرنے والے اشخاص یا صورتِ حالات سے دُور رہا جائے ۔

(قرآن4:140 )

”اور بے شک اللہ تم پر کتاب (قرآنِ مجید) میں اتار چکا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کا انکار ہوتے سنو اور ان کی ہنسی اُڑائی جاتی ہو تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوں۔“(قرآن4:140 )

(قرآن مجید 28: 55)

©©”اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں، اس سے تغافل کرتے ہیںاور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے عمل اورتمھارے لیے تمھارے عمل۔ بس تم پر سلام۔ ہم جاہلوں کی طرح عمل نہیں کرنا چاہتے۔“ “ “(قرآن مجید 28: 55)

(قرآن مجید 7:199 )

”معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ پھیر لو۔“ (قرآن مجید 7:199 )

”اور کافروں کی باتوں پر صبر فرماﺅ اور انھیں اچھی طرح چھوڑ دو۔“ (قرآن مجید73:10)
”اور رحمان کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل اُن سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام“ (قرآن مجید25:63)
”بے شک اللہ اُن کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں۔(قرآن مجید 16: 128)
دیگر آیات ایسی صورت میں معاف کر دینے اور دُور رہنے پر زور دیتی ہیں۔ پھر بھی اگر کسی معاملے میں سزا دینی بھی ہو تو قرآن مجید اس کی وضاحت یوں کرتا ہے. ”اور اگر تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تکلیف تمھیں پہنچائی تھی۔ اور اگر تم صبر کرو تو بے شک صبر کرنے والوں کو صبر سب سے اچھا۔“ (قرآن مجید16:126)

کیا پاکستان میں توہینِ رسالت کا قانون اس موضوع پر قرآنی تعلیمات کی سچی روح کے بیرونی کناروں کوبھی چھوتا ہے؟
نہیں ، ایسا نہیں ہے۔

اگر اسلام کا مطلب توہینِ رسالت کے ساتھ سختی اور شدت سے نمٹنا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے. کہ ”توہینِ رسالت“ کا لفظ قرآن مجید میں موجود نہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے آئیے ہم اُس مولانا کے بارے میں سوچیں. جوباقاعدگی کے ساتھ دُوسروں کو تصویریں بنانے ٹیلی وژن پر آنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے میٹرک کے زمانے میںملتان میں ہونے والے .”دعوتِ اسلامی“ کے ”اجتماعِ عام“ میں شرکت کی تھی۔ میں نے اس تنظیم کے سربراہ کی تصویر لینے کی کوشش کی ۔ اس پر نہ صرف یہ کہ مجھے چابک سے پیٹا گیا بلکہ میرا کیمرا توڑ کر پھینک دیا گیا۔ اب مولانا نے پاکستان میں اپنا ٹی۔وی چینل شروع کر دیا ہے۔ ”مدنی چینل“ اور ”پیغام ٹی۔وی“ اس کی مثالیں ہیں۔کیا آپ نے اُن قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے بارے میں سوچا ہے .جن کا مولانا حوالہ دے کر فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں فوٹوگرافی حرام ہے۔ اب وہ کہاں گئے ہیں؟
قرآنِ مجیدمیں ذرہّ برابر تبدیلی آئی ہے. نہ احادیثِ مبارکہ میں جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستند روایات ہیں۔ صرف مولانا ﺅں نے اسے تبدیل کیا ہے۔ قرآنِ مجید کی دو سو سے زیادہ آیات ہیں جو بتاتی ہیں. کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے لوگوں نے. کئی بار یہی حرکت کی

جسے آج توہینِ رسالت کہا جاتا ہے.

لیکن کہیں قرآنِ مجید ان کے لیے جسمانی سزا یا موت تجویز نہیں کرتا۔
اب میںسابق گورنر سلمان تاثیر کے سزا یافتہ قاتل ممتاز قادری کے حق میں ہجوم کے نعرے سنتا ہوں۔ تاثیر نے آسیہ بی بی کی حمایت میں بات کی تھی۔ آسیہ بی بی پہلی خاتون تھی جسے پاکستان کے توہینِ رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ خاتون پانچ سال تک ثابت قدمی کے ساتھ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. کی توہین کرنے سے انکار کرتی رہی۔ اُس نے بتایا کہ اُس پر الزام لگانے والے مسلمان .اُس کے خاندان کے ساتھ ذاتی دشمنی کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں۔ بالآخر پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس عیسائی عورت کی سزا کو معطل کر دیا۔
تاثیر موجودہ قانون میں تبدیلی کی ضرورت کے زبردست حامی تھے. جب انھوں نے کہا کہ ”جو چیز مجھے پریشان کرتی.وہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر اس قانون کے تحت مقدمہ چلا ہے. اگر آپ سیکڑوں مقدمات دیکھیں توآپ سوال کریں ان میں سے کتنے خوش حال تھے؟ایسا کیوں ہے کہ صرف ایسے لوگوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے. جو غریب ہوتے ہیں اور اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔عیسائی ملکی آبادی کے دو فی صد سے بھی کم.

توہینِ رسالت کرنے والوں میں پچاس فی صد سے زائد عیسائی ہوتے ہیں۔

ہیں لیکن توہینِ رسالت کرنے والوں میں پچاس فی صد سے زائد عیسائی ہوتے ہیں۔ ان نکات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اقلیتوں کو ہدف بنانے کے لیے اس قانون کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جو بات مجھے ناگوار لگتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب آپ ترمیم کی بات کرتے ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں آپ نے کوئی جرم کر دیا ہے۔ اگر میں سزائے موت کے خلاف ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میںنے قتل کیا ہے۔
قادری جوشریعت کے قانون کی بنیاد پر آزادی تلاش کر رہا تھا ، اُس کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے بنچ نے نوٹ کیا کہ ساری دلیل غیر متعلقہ ہو گی اگر یہ ثابت نہ کیا جا سکا کہ تاثیر نے توہینِ رسالت کی ہے۔ اس کے بجائے سابقہ ایلیٹ فورس کے کمانڈو اور تاثیر کے باڈی گارڈ نے اپنے حلف، فرضِ منصبی ، ذمے داری اور آئینِ پاکستان کو دھوکا دیا۔ اُس نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا جسے کسی مجاز اتھارٹی نے تعزیراتِ پاکستان کے سکیشن 295۔سی میں پائے جانے والے امتیاز کے خلاف آواز اُٹھانے پرقصور وار قرار نہیں دیا تھا۔

یہ موقف کہ

” جو توہینِ رسالت کرنے والے معافی مانگیں گے، ان کی موت کی سزا بخش دی جائے گی“حنفی مکتبِ فکر کے بانی امام ابو حنیفہ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں۔ 295۔سی کے قانون میں توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے کے لیے معافی کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ درحقیقت یہ وفاقی شرعی عدالت کی توجیہ ہے جو اس قانون کے اطلاق کا عملی خاکہ ہے جو معافی کو مسترد کر دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پیش کیے گئے اخبارے تراشے اس بات کی کافی شہادت مہیا نہیں کرتے کہ تاثیر نے توہینِ رسالت کی تھی۔
کبھی جو طالبان بھائی تھے، اب ہماری لغت میں ان پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ چناں چہ کیا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مشاہیر پر غور کریں؟

احتجاجاً1974

ہم اس قابل کب ہوں گے کہ فاٹا کے اعتزاز حسن بنگش اور لاہور کے آکاش بشیر کے نام بغیر دشمنی اور تعصب کے لے سکیں گے؟
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام جو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کے بعد احتجاجاً1974ءمیں پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے تھے، بالآخربجا طور پر اُن کا ذکر ہماری طبیعات کی کتابوں میں آ گیا ہے۔ کیا ہماری قومی گفت گو میں پرویز مسیح کوطاہرہ قاضی کے برابر جرات و شجاعت کے ہیرو کے طور پردیکھا جا سکتا ہے؟
فلوریڈا پیسٹر، ٹیری جونز کو یاد کریں جنھوں نے قرآنِ مجید جلایا اور توہینِ عدالت کی۔ اگر وہ مسلمان ہوتے اور کسی دُوسرے فرقے یا مذہب کے ساتھ ایسا کرتے تو ہمارے لوگ اُسے ہیرو بنا لیتے۔ لیکن توہینِ رسالت نے اُسے امریکی معاشرے کا ناپسندیدہ ترین شخص بنا دیا۔ چناں چہ گرجا گھر سے دھتکارے جانے کے بعد معاشرہ بریڈینٹن فلوریڈا میں ”فرائی گائز گورمے“ پر رازہ فرنچ فرائز کھا کر بھوکے پیٹ بھرتی دیکھی گئی۔ ہمارے مسائل ایسے ہی رہیں گے جب تک ہم سب مل کرمذہب سے قطع نظر اپنے ہیروز کے حق میں دلیل اور اعتدال کی آواز بلند نہیں کریں گے ۔ ہم وفاداری کے ساتھ قرآن مجید اور نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا احترم کریں اور ان کی تقلید کریں۔
کیا ہم اتنے طاقت ور ہیں کہ امتیاز ی برتاﺅ کو روک سکیں؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.