Waqas A. Khan

Waqas A. Khan

مابعد طلاق سرپرستی اور مردوں کے حقوق: پاکستان میںحقوقِ انساں کے پر جوش حامیوں کا ایک کیس

صنفِ مخالف سے شادی کی خواہش کرنا ہر انسان کا انتخاب ہوتا ہے۔ خوب صورت لباس، پارٹی، ہنی مون اور رات کے کھانے سب چیزیں اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہیں جب میاں بیوی میں سے کوئی ایک اپنی شادی کوتوڑنے کا اعلان کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر طلاقوں کی شروعات مردوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ مردوں کے غلبے اور شاونزم کی وجہ سے مرد اپنی بیوی کو کنیز کے طور پر لیتے ہیں یا تنخواہ دار ”چیز“ سمجھتے ہیں۔ وہ اُسے مقرر کردہ حدود کے اندر رکھنے کے لیے طلاق کو ایک دھمکی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ حدود اکثر و بیشتر بیوی کے لیے توہین آمیز ہوتی ہیں۔ جو اِن ”حدود“ کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہیں، اُنھیں طلاق دے دی جاتی ہے۔ ایک بڑی اکثریت جارح سے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہے ۔ لیکن ہمیں حقوقِ نسواں کے بڑھتے ہوئے شعور کا شکر گزار ہو نا چاہیے جس کی وجہ سے اب پہلے کی نسبت زیادہ خواتین قانون کے مطابق اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔
صرف لاہور میں فروری2015ءسے فروری2016ءتک تقریباً ساٹھ ہزار طلاق کے مقدموں کا اندراج ہوا۔جیسے جیسے حقوقِ نسواں اور خواتین کے متعلق بنائے گئے قوانین کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے ، ویسے ویسے جارحیت کا توازن بھی بدل رہا ہے۔ 2015ءمیں لاہور میں طلاق کے چھاسٹھ فی صد مقدمات خواتین کی طرف سے دائر کیے گئے اگرچہ اس سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ جارح کون تھا۔ خواتین کو اختیارات دینے پر توجہ مرکوز کرنے والے قوانین اور اُنھیں اپنی مرضی پر عمل کرنے کی آزادی دینے سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے خواتین کے بارے میں مردوں کا رویہ تبدیل ہو جائے گا۔ اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوتی کہ پاکستان میں زیادہ تر مرد اپنی بیویوں کو یرغمالی یا مالِ غنیمت تصور کرتے ہیں۔
اگرچہ کچھ مقدمات میں خواتین اپنے مکارانہ مفادات کی وجہ سے حالات پیدا کر کے تعلقات کو ایسے انجام کی طرف لے جاتی ہیں جن میں شادی کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ خواتین عام طور پر اس حقیقت سے بخوبی باخبر ہوتی ہیں کہ حالات خواہ کیسے بھی ہو جائیں اور جارح کوئی بھی ہو، عدالتیں اُن کی طرف داری کریں گی۔خواتین اپنے مقدمات اس طرح ”گھڑتی“ ہیں کہ وہ ”مظلوم “ نظر آئیں۔ اُن کی عدالت میں موجودگی مظلوم مرد کو انصاف نہ ملنے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین سے متعلقہ مخصوص قوانین غلط طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
پاکستان میںخواتین کے مخصوص قوانین مندرجہ¿ ذیل ہیں:
سرپرست اور وارڈ ایکٹ 1890
بیرونِ ملک شادی کا ایکٹ 1903
بچوں کی شادی کو محدود کرنے کا ایکٹ 1929
مسلمانوں کی شادیوں کی تحلیل کا ایکٹ 1939
مسلم عائلی قوانین آرڈیننس1961
مسلم عائلی قوانین آرڈیننس کے تحت مغربی پاکستان رُولز1961
مغربی پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ1964
مغربی پاکستان فیملی کورٹ رُولز1965
جہیز اور دلہن کے تحائف (ممانعت) ایکٹ1976
حدود آرڈیننس1979
قانونِ شہادت آرڈر1984
پاکستان شہریت ایکٹ 1951 ، جزویطورر پر ترمیم شدہ2001
فیملی کورٹ ایکٹ میں ترامیم برائے خلع وغیرہ2002
کریمینل لا (ترمیمی(ایکٹ 2004(عزت کے نام پر ہونے والے جرائم کے بارے میں)
تحفظِ نسواں(کریمینل لا میں ترامیم) ایکٹ 2006
کریمینل لا (ترامیم) ایکٹ 2010(جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں)
جائے ملازمت پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف ایکٹ 2010
عورت مخالف ہونے والے کاموں کی روک تھام (کریمینل لا ترمیم ) ایکٹ 2011
تیزاب پر کنٹرول اور تیزاب کے جرم کی روک تھام ایکٹ 2010
کھنچاﺅ اور حراست میں خواتین کا فنڈ (ترمیم) ایکٹ2011
تحفظِ نسواں بل2016
چوں کہ عدالتی نظام عورتوں کی حمایت کرتا ہے ، دلیل عورتوں کے حقوق کی نفی کرنے یا حوصلہ شکنی کی نہیں ہے، کیوں کہ عورتوں کی نزاکت کا مطلب کمزور تر اور غیر انسانی معاشرہ ہے۔ ہمیں مردوں پر کچھ روشنی ڈالنی چاہیے جن پر پاکستان میں فیملی اور گارڈین ججوں کی اکثریت کے ہاتھوں امتیاز کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے ۔
معروف آئینی ماہر اور اس موضوع کے وکیل فہد احمد صدیقی نے ججوں کی نااہلیت اور بزدلی کا ذکر کیا کہ وہ غلط عدالتی روشوں اور عوامی جذبات کے خلاف نہیں جا سکتے۔
اُن کے خیال میں مدبرانہ اور دانش مندانہ ذہن کا استعمال کرنا چاہیے اور دست یاب شہادت پر، جو ایسے مقدمات میں بہت کم ہوتی ہے،

کم بھروسا کرنا چاہیے۔ والدین اور عدالت دونوں کی جانب سے بچوں کو شہادتی مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ججوں کی طرف سے ماﺅں کو عبوری اور مستقل نگرانی سونپ دی جاتی ہے ، یہ جج غیر جارح باپوں کے قانونی حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ صدیقی نے کہا :”جارح نگرانی والی مقدمہ بازی میںانتقام کی خاطر اکثر معصوم بچے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ وہ بچے پر شدید جذباتی اور نفسیاتی دباﺅ ڈالنے میںکوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، یوں بچے کی آنے والی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طلاق کے وسیع پیمانے پر فرد ، خاندان اور معاشرے پر بہت سے مضمرات ہوتے ہیں۔طلاق یافتہ جوڑوں کے بچے اپنی پوری زندگی کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو شطرنج کے مہروںکی طرح استعمال کرتے ہیں۔ بچوں پر غیر ذمہ دار والدین ہونے کا داغ لگا دیتے ہیں۔ والدین اپنی اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیںاور اپنے نئے ساتھی چن لیتے ہیں لیکن بچے زندگی بھر ہیرا پھیری کیے جانے اور جذباتی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کے صدمے کی کیفیت میں رہتے ہیں ۔ میں نے ایسے بہت سے بچوں میں شخصیت کی بے قاعدگیاں، مجرمانہ رویے اور سماج مخالف اثرات دیکھے ہیں۔“
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے وکیل سردار امان خان ترین عائلی اور سرپرستی والے مقدمات کا مشہور نام ہیں۔ اس مسئلے کا تجزیہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا: ”میں محسوس کرتا ہوں کہ عدالتیں اس لیے بنائی گئی تھیں کہ بغیر امتیاز کے انصاف فراہم کر کے
ا نسانی احساسات و جذبات کی حفاظت کریں ۔ دولت اور جائیداد دُوسری ترجیح ہیں۔ تاہم آج نہ ہونے کے برابر جج ان احساسات و جذبات کی پروا کرتے ہیں۔ عائلی اور سرپرستی والے مقدمے ایسے ہوتے ہیں جہاں ”پورا“ دانش مندانہ ذہن کام میں لانا چاہیے کیوں کہ غلط فیصلہ ہونے کی صورت میں بچے ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کریں گے۔ “
یہی وجہ ہے اگرچہ وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بہت مصروف ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اُنھوں نے ان مقدمات میں ضلعی عدالتوں میں پیش ہونا ترک نہیں کیا۔ ”جارح والد یا والدہ کی خواہش پر جو کچھ من گھڑت بچے کہتے ہیں، اس سے ان نابالغ بچوں کی فلاح و بہبود نہیں جڑی ہے بلکہ ان کی کی فلاح کا انحصار اُس دانش مندانہ ذہن پر ہے جو عدالت کو ان بچوں کو مستقل تکلیف سے بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔“ خان نے کہا۔
لیکن کچھ استثنا بھی ہیں۔ اس ضمن میں چند ایک نمایاں فیصلے یہ امید دلاتے ہیں کہ پاکستانی قانون کی نظر میں مرد اور خواتین برابر ہیں۔ سنئیر سول جج صائمہ عاصم نے خیبر پختون خوا میں ہری پورمیں ایک والد کے حق میں اہم فیصلہ دیا ہے ۔ اُس نے عدالت کے روبرو عرض کی کہ مصالحتی کارروائی کے دوران میں بچے اپنی ماں کی نگرانی میں رہیں کیوں کہ اسے امید ہے کہ عدالتی تصفیے کے بعد وہ اپنے خاندان کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اُس کے بچوں کی تکلیفیں ختم ہو جائیں گی، لیکن اس کی سابقہ بیوی اُس کے اس تصفیے والے بیان کو اپنے سابقہ خاوند کوبچوں کی نگرانی سے دُور رکھنے کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔

اپنی ماں کی نگرانی میں ہوتے ہوئے بچے بری کوالٹی والی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور غیر معیاری ماحول میں رہ رہے تھے۔عدالت نے حکم دیا

” کوئی سابقہ سمجھوتا یا سابقہ حکم عائلی عدالت کے ہاتھ نہیں باندھ سکتا۔عدالت اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لے سکتی ہے بشرطے کہ نابالغ بچوں کا مفاد پیشِ نظر رکھتے ہوئے وافر جواز موجود ہو کہ سابقہ فیصلے کے بعدکیا نئے حالات پیدا ہوئے۔ “باپ کی طرف سے نگرانی کی ایک نئی درخواست نئی شہادت اور ثبوت کے لیے قبول کی گئی ۔
انصر جبار ڈوگر ایڈووکیٹ کو یقین ہے کہ قانون مکمل طور پر متوازن ہے مگر زیادہ تر مقدمات میں عدالت والد کو شاذونادر ہی بچے سے ملنے کی اجازت دیتی ہے۔ اکثر والد سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے سے ملنے کے لیے بیس سے پچیس لاکھ روپے کی مالیت کا ضمانتی بانڈ جمع کرائے۔ 2014ءمیں سی ایل سی1168میںلاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ باپ کا اپنے بچوں سے ملنے کا حق ہر بار ضمانتیں جمع کرانے کی شرط عائد کر کے روکا نہیں کیا جا سکتا“ لیکن کتنی بار باپوں کو بغیر ضمانتی بانڈ جمع کرائے اپنے بچوں کی عبوری نگرانی ملی ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ روش ابھی تک جاری ہے۔
احمد نواز خان ایڈووکیٹ کا خیال ہے کہ عدالت کی نگرانی میں ہونے والی باپوں کی ملاقاتوں کے مسائل ایسی بات ہیں جو فوری ترمیم کا تقاضا کرتے ہیں۔ ”عدالتیں ایسی ملاقات کی عدالت کے احاطے میں دو گھنٹے کے لیے مہینے میں ایک بار اجازت دیتی ہیں۔ عام طور پر یہ آنے جانے والی بات ہی ہوتی ہے کہ جہاں بچے جارح کے انتہائی دباﺅ کے باعث یا تو ملنے سے انکار کر دیتے ہیں یا چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں ، اس سے عدالتی کارروائی میں خلل پڑتا ہے، یوں یہ ملاقاتیں ہولناک انداز میں ختم ہوتی ہیں۔ مہینے کے سات سو اٹھارہ گھنٹوں میں سے صرف دو گھنٹے باپ کو دیے جاتے ہیں، یہ باپ کے لیے تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی اور دیگر بیرونی افراد کی موجودگی میں اپنے بچوں سے بات چیت کرے یا ان سے پیار کرے۔ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بار بار یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ ایسی ملاقا،توں میں وہ ماں یا باپ نہیں بیٹھیں گے جن کی تحویل میں بچے دیے گئے ہوں گے تاکہ ملاقات کرنے والا ماں یا باپ آزادانہ طور پر اپنے بچوں سے بات چت کر سکے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ قانون عدالت کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ اس ملاقات کو دو گھنٹے تک محدود کر دیا جائے۔ “
حقوقِ نسواں کے چند پر جوش علم بردار چاہتے ہیں کہ خواتین اپنا کیک کھا بھی لیں اور اس کے باوجود وہ باقی بھی رہ جائے۔ لیکن ہم مٹھائیوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ہم اُن معمولی اور چھوٹے انسانوں کی بات کر رہے ہیں جن کے اپنے جذبات واحساسات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عدالتوں کوفیصلہ کرتے ہوئے دلیرانہ اقدامات کرتے ہوئے دانش مندانہ ذہن استعمال کرنا چاہیے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جس ماں یا باپ کی تحویل میں بچے نہ ہوں، بچوں کو اُن سے دُور نہ رکھا جائے۔ بچوں کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ اُن میں گہرے تعلق اور دوستی کا فقدان ہو۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے بغیر بچے ہچکچاہٹ والے اور ڈرے سہمے رہیں گے اور اس صورتِ حال کا الزام اُس ماں یا
باپ کے ذمے دھر دیا جائے گا جس کی تحویل میں بچے نہیں ہوتے۔ بچہ جھگڑالو، متشدد، سرکش اور ضدی بن جائیں گے ۔ یہ بچے اضطراب، گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اور غصیلے مزاج والے بن جائیں گے۔ کسی چیز کی طرف توجہ مرکوز رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ان میں اعتماد

اور عزتِ نفس کی کمی ہو گی۔ بچے ان سب چیزوں کے مستحق نہیں ہیں۔
آئیے ہم سب ان بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشش کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dr. Waqas A. Khan is a Journalist - Educationist - Lawyer from Kasur Pakistan.